امریکہ نے سعودی عرب کی سب سے بڑی تیل تنصیبات پر حملوں کا ذمہ دار ایران کو قرار دے دیا ہے۔
امریکہ کے وزیر خارجہ مائیک پومپیو کا کہنا ہے کہ حملوں میں یمن کا کوئی کردار نہیں بلکہ ان کے پیچھے ایران کا ہاتھ ہے۔
ہفتے کو اپنی ٹوئٹ میں مائیک پومپیو کا کہنا تھا کہ تہران سعودی عرب میں لگ بھگ ایک سو حملوں میں ملوث ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ کشیدگی بڑھانے کے بعد اب ایران نے دنیا کی سب سے بڑی آئل ریفائنری کو نشانہ بنایا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم دیگر ممالک سے یہ امید رکھتے ہیں کہ وہ ایران کے اس اقدام کی مذمت کریں گے۔ مائیک پومپیو نے واضح کیا کہ امریکہ اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر صورتِ حال کا جائزہ لے گا اور ایران کا محاسبہ کیا جائے گا۔
خیال رہے کہ ہفتے کو یمن کے ایران نواز حوثی باغیوں نے سعودی عرب میں موجود دنیا کی سب سے بڑی آئل ریفائنری آرمکو کی دو تنصیبات کو نشانہ بنانے کا دعویٰ کیا تھا۔ جس سے سعودی عرب کی تیل پیدا کرنے کی صلاحیت میں پچاس فی صد کمی جب کہ عالمی سطح پر تیل کی قیمتوں میں اضافے کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے۔
آرمکو حکام کے مطابق حملوں کے باعث روزانہ 57 لاکھ بیرل تیل کی پیدوار کم ہو گی۔ جب کہ تیل کی عالمی ترسیل میں پانچ فی صد کمی ہو سکتی ہے۔
محمد بن سلمان کا صدر ٹرمپ سے رابطہ
سعودی عرب کے سرکاری خبر رساں ادارے سپا کے مطابق حملوں کے بعد سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان نے امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ٹیلی فون پر بات کی ہے۔
محمد بن سلمان کا کہنا تھا کہ سعودی عرب تیل تنصیبات پر حملہ کرنے والے دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کی صلاحیت رکھتا ہے۔
صدر ٹرمپ نے حملوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ اپنے اتحادی سعودی عرب کا تحفظ یقینی بنانے کے لیے پرعزم ہے۔
امریکی محکمہ توانائی کے حکام کا کہنا ہے کہ ضرورت پڑنے پر امریکہ اپنے تیل ذخائر کو بروئے کار لا سکتا ہے۔ اس ضمن میں امریکہ متعلقہ حکام سے رابطے میں رہے گا۔
آرمکو کے چیف ایگزیکٹو امین نصیر کا کہنا ہے کہ حملوں میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔
ایران نے امریکہ کے وزیر خارجہ مائیک پومپیو کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے انہیں بے معنی قرار دیا ہے۔
واضح رہے کہ سعودی عرب کی قیادت میں مارچ 2015 سے یمن میں باغیوں کے خلاف جنگ جاری ہے دوسری جانب یمن میں باغی حوثیوں کو ایران کی حمایت حاصل ہے۔
یمن کے دارالحکومت صنعا پر بھی باغی قابض ہیں جبکہ دیگر کئی علاقوں میں حوثی اپنی عمل داری قائم کر چکے ہیں۔
یمن کی جنگ میں 2015 سے 2019 کے درمیان چار سال میں ایک اندازے کے مطابق 90 ہزار افراد کی ہلاکت ہو چکی ہے۔
جب سے جنگ کا آغاز ہوا ہے یمن کے حوثی باغیوں کی جانب سے حملوں کے لیے ڈرونز کا استعمال کیا جا رہا ہے۔
پہلی بار جو ڈرون ہاتھ آئے تھے یہ ایرانی ساختہ ہونے کا الزام عائد کیا گیا تھا تاہم ایران مسلسل انکار کرتا رہا ہے کہ وہ حوثی باغیوں کی مدد کر رہا ہے۔دوسری جانب اقوام متحدہ، مغربی ممالک، مشرق وسطیٰ کے عرب ملک تہران پر مدد کا الزام عائد کرتے رہے ہیں۔