رسائی کے لنکس

امریکہ کے ساتھ کسی سطح پر کوئی بات نہیں ہوگی: خامنہ ای


ایران کے رہبرِ اعلیٰ آیت اللہ علی خامنہ ای ایک تقریب سے خطاب کر رہے ہیں جب کہ ان کے ہمراہ ایران کے وزیرِ خارجہ جواد ظریف موجود ہیں۔ (فائل فوٹو)
ایران کے رہبرِ اعلیٰ آیت اللہ علی خامنہ ای ایک تقریب سے خطاب کر رہے ہیں جب کہ ان کے ہمراہ ایران کے وزیرِ خارجہ جواد ظریف موجود ہیں۔ (فائل فوٹو)

ایران کے رہبرِ اعلیٰ آیت اللہ علی خامنہ ای نے اعلان کیا ہے کہ ان کا ملک امریکہ کے ساتھ کسی بھی سطح پر کوئی بات چیت نہیں کرے گا۔

ایران کے سرکاری ٹی وی کے مطابق خامنہ ای نے منگل کو اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ امریکی حکام کی جانب سے بات چیت کی پیشکشوں کا مقصد ایران پر دباؤ بڑھانا ہے۔

خامنہ ای کے بقول ایران کے تمام عہدیدار وں کا یہی مؤقف ہے اور امریکہ کی ایران پر دباؤ بڑھانے کی پالیسی ناکامی سے دوچار ہوگی۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ خامنہ ای نے یہ بیان بظاہر امریکہ اور ایران کے صدور کے درمیان ممکنہ ملاقات سے متعلق قیاس آرائیوں کے ردِ عمل میں دیا ہے۔

ان قیاس آرائیوں کو تقویت صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ایک حالیہ بیان سے ملی تھی جس میں انہوں نے کہا تھا کہ وہ رواں ماہ نیویارک میں ہونے والے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سربراہ اجلاس کے موقع پر اپنے ایرانی ہم منصب حسن روحانی سے مل سکتے ہیں۔

لیکن ایران کے رہبرِ اعلیٰ کی جانب سے امریکہ کے ساتھ کسی بھی سطح پر بات چیت سے انکار کے بعد بظاہر ایسی کسی ملاقات کا امکان نہیں رہا ہے۔

واضح رہے کہ ایران کے سیاسی نظام میں تمام ریاستی اور حکومتی امور میں حتمی فیصلے اور منظوری کا اختیار رہبرِ اعلیٰ کے پاس ہے۔

منگل کو اپنے بیان میں آیت اللہ خامنہ ای کا مزید کہنا تھا کہ اگر ایران دباؤ کے آگے جھک گیا اور اس نے امریکہ سے مذاکرات کیے تو اس سے یہ تاثر جائے گا کہ ایران پر ہر ممکن دباؤ ڈالنے کی امریکیوں کی پالیسی کامیاب ہوگئی ہے۔ ان کے بقول امریکہ کو یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ ایرانیوں کے نزدیک ان کی اس پالیسی کی کوئی اہمیت نہیں۔

البتہ خامنہ ای کا یہ بھی کہنا تھا کہ اگر امریکہ اپنا رویہ تبدیل کرلے اور ایران کے ساتھ 2015ء میں طے پانے والے جوہری معاہدے کی طرف لوٹ آئے تو وہ ایران اور معاہدے میں شریک دیگر عالمی طاقتوں کے درمیان ہونے والی کثیر الفریقی بات چیت میں شریک ہوسکتا ہے۔

امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک سال قبل اس معاہدے سے علیحدگی اختیار کرلی تھی جس کے بعد سے ان کی حکومت ایران پر اقتصادی پابندیاں سخت کرتی جا رہی ہے۔

امریکی حکام کا مؤقف ہے کہ پابندیاں مزید سخت کرنے کا مقصد ایران کو دوبارہ مذاکرات کی میز پر لانا اور اسے مزید سخت شرائط کے حامل کسی نئے جوہری معاہدے پر مجبور کرنا ہے۔

لیکن امریکی پابندیوں کے ردِ عمل میں ایران بتدریج جوہری معاہدے میں طے کی جانے والی شرائط کی خلاف ورزیاں بڑھا رہا ہے ۔ تہران حکومت کا مؤقف ہے کہ اگر معاہدے میں شریک یورپی طاقتوں نے ایران کو امریکی پابندیوں سے بچانے کے لیے کردار ادا نہ کیا تو وہ جوہری معاہدے پر مکمل طور پر عمل درآمد روک دے گی۔

گزشتہ ہفتے یمن کے حوثی باغیوں کی جانب سے سعودی عرب کی تیل کی دو بڑی تنصیبات پر ڈرون حملوں کے بعد مشرقِ وسطیٰ میں جاری کشیدگی میں مزید اضافہ ہوگیا ہے اور واشنگٹن ڈی سی اور تہران ایک بار پھر آمنے سامنے آگئے ہیں۔

صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پیر کو کہا تھا کہ بظاہر یہی لگتا ہے کہ حملے میں ایران ملوث ہے۔ لیکن ساتھ ہی اُن کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ ایران کے ساتھ جنگ نہیں چاہتے۔ ایران نے حملے میں ملوث ہونے کے الزام کی تردید کی ہے۔

XS
SM
MD
LG