پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے دعویٰ کیا ہے کہ امریکہ اور سعودی عرب نے اُنہیں ایران کے معاملے پر ثالثی کے لیے کہا ہے۔
وزیرِ اعظم عمران خان اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لیے نیویارک میں موجود ہیں، جہاں انہوں نے امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ایران کے صدر حسن روحانی سے الگ الگ ملاقات کی ہے۔
نیویارک آنے سے پہلے عمران خان نے دورہ سعودی عرب کے دوران سعودی ولی عہد محمد بن سلمان سے بھی ملاقات کی تھی۔
نیویارک میں منگل کو نیوز کانفرنس کے دوران عمران خان نے دعویٰ کیا کہ صدر ٹرمپ نے ان سے پوچھا ہے کہ پاکستان مشرقِ وسطیٰ میں کشیدگی کم کرانے میں کیا کردار ادا کر سکتا ہے۔
وزیر اعظم عمران خان نے بتایا کہ انہوں نے اس کے بعد فوری طور پر منگل کو ایران کے صدر حسن روحانی سے ملاقات کی اور اُنہیں اس بات سے آگاہ کیا۔ عمران خان نے کہا کہ وہ معاملات بہتر کرنے کی پوری کوشش کر رہے ہیں۔
پاکستان کے وزیر اعظم کا مزید کہنا تھا کہ سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان نے بھی اُنہیں ایران کے صدر سے بات کرنے کے لیے کہا تھا۔
پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان کا ایران کے معاملے پر ثالثی کا بیان ایسے وقت سامنے آیا ہے جب امریکہ اور سعودی عرب مشرق وسطیٰ میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کا ذمہ دار ایران کو ٹھہرا رہے ہیں۔ تہران ان الزامات کو مسترد کرتا رہا ہے۔
عالمی امور کے ماہر تجزیہ کار ظفر جسپال کہتے ہیں کہ روایتی طور پر پاکستان کے سعودی عرب کے ساتھ گہرے روابط ہیں۔ ان کے بقول، گزشتہ عرصے میں پاکستان کے امریکہ کے ساتھ تعلقات بھی بہتر ہوئے ہیں۔ لہذٰا، پاکستان دونوں ممالک کے ایران کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے میں مثبت کردار ادا کر سکتا ہے۔
ظفر جسپال کہتے ہیں کہ پاکستان کی مشرقِ وسطیٰ میں غیر جانبدرانہ پالیسی سے ایران کو بھی یقین ہو گیا ہے کہ پاکستان مشرقِ وسطیٰ میں کسی بھی تنازع کا حصہ نہیں بنے گا۔ ان کے بقول، امریکہ کی یہ خواہش ہے کہ صدر ٹرمپ کی ایران کے صدر حسن روحانی سے ملاقات ہو جائے۔ جب کہ سعودی عرب بھی یمن کے تنازع سے نکلنا چاہتا ہے اور ایران بھی یہ چاہتا ہے کہ خطے میں کشیدگی کم ہو۔
ظفر جسپال کے مطابق امریکہ، ایران اور سعودی عرب تینوں خطے میں جنگ نہیں چاہتے۔ ایسے میں اگر پاکستان کوئی کردار ادا کرتا ہے تو تینوں ممالک قریب آ سکتے ہیں۔
تجزیہ کار زاہد حسین اس بات سے اتفاق نہیں کرتے۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان ایران اور امریکہ کے درمیان بڑھتی ہوئی خلیج کو کم نہیں کر سکتا۔ ان کا کہنا ہے کہ امریکہ کے حلیف مغربی اور یورپی ممالک اس معاملے میں کوئی کردار ادا نہیں کر سکے تو پاکستان سے یہ توقع کیسے کی جا سکتی ہے۔
خیال رہے کہ امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ گزشتہ سال ایران کے ساتھ 2015 میں طے پانے والے جوہری معاہدے سے یکطرفہ طور پر الگ ہو گئے تھے۔ اس جوہری معاہدے کے ضامن یورپی ممالک بھی تھے جنہوں نے صدر ٹرمپ کے اس اقدام پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا تھا۔
زاہد حسین کہتے ہیں کہ پاکستان سعودی عرب اور ایران کے درمیان سفارتی پیغام رسانی کا کردار ضرور ادا کر سکتا ہے۔ ان کے بقول، سعودی عرب اور ایران کے درمیان اختلافات کی خلیج بہت وسیع ہے اور پاکستان کے لیے اس ضمن میں ثالث کا کردار ادا کرنا ایک پیچیدہ معاملہ ہے۔