رسائی کے لنکس

سعودی عرب اور ایران میں کشیدگی کا خاتمہ، عمران خان کا تہران کا دورہ


پاکستان کے وزیر اعظم ایک روزہ دورے پر ایران کے دارالحکومت پہنچے ہیں
پاکستان کے وزیر اعظم ایک روزہ دورے پر ایران کے دارالحکومت پہنچے ہیں

پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان سعودی عرب اور ایران کے مابین کشیدگی کے خاتمے کے لیے ایک روزہ دورے پر تہران پہنچے جہاں انہوں نے ایران کے صدر حسن روحانی اور ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ سید علی خامنائی سے ملاقاتوں میں مختلف امور پر تبادلہ خیال کیا ہے۔

وزیر اعظم عمران خان کے وفد میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی، معاون خصوصی برائے اوورسیز پاکستانی سید ذوالفقار عباس بخاری اور دیگر اعلیٰ حکام بھی شامل ہیں۔

سرکاری طور پر جاری ہونے والی ویڈیو میں پاکستان کے اہم ترین خفیہ ادارے انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید بھی وزیر اعظم کے ہمراہ نظر آ رہے ہیں۔

عمران خان کی تہران آمد پر استقبال
please wait

No media source currently available

0:00 0:00:16 0:00

تہران پہنچنے پر ایران کے وزیر خارجہ جواد ظریف نے عمران خان کا ایئرپورٹ پر استقبال کیا۔ انہوں نے تہران پہنچنے کے فوری بعد ایران کے صدر حسن روحانی سے ملاقات کی۔

'ایران سعودی عرب تنازع پیچیدہ اور مشکل معاملہ'

ملاقات کے بعد ایران کے صدر حسن روحانی کے ہمراہ ذرائع ابلاغ سے گفتگو میں وزیر اعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ ایران اور سعودی عرب کے درمیان جنگ نہیں چاہتے کیونکہ اس سے نہ صرف خطے میں عدم استحکام بڑھے گا بلکہ دنیا میں تیل کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوگا جس کے باعث غربت بھی بڑھے گی۔

انہوں نے کہا کہ ایران اور سعودی عرب کا تنازع ایک پیچیدہ اور مشکل معاملہ ہے لیکن چاہتے ہیں کہ دو برادر ممالک میں بات چیت کے ذریعے تنازعے کا حل تلاش کیا جائے۔

اسلام آباد کے کردار کے حوالے سے عمران خان کا کہنا تھا کہ پاکستان سعودی عرب اور ایران کے درمیان ثالث نہیں بلکہ مصالحت کار کا کردار ادا کرنا چاہتا ہے۔

عمران خان کے مطابق انہوں نے یہ اقدام کسی کے کہنے پر نہیں اٹھایا بلکہ یہ پاکستان کا اپنا اقدام ہے۔

پاکستان کے وزیر اعظم نے کہا کہ صدر روحانی سے ملاقات کے بعد کافی پرامید ہیں کہ مثبت سوچ کے ساتھ ریاض جائیں گے۔

عمران خان نے مزید کہا کہ پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں گزشتہ 15 برس کے دوران 70 لاکھ افراد کی ہلاکتیں ہوئیں جبکہ افغانستان و شام تاحال کشیدگی کا شکار ہیں۔

دوسری جانب ایران کے صدر حسن روحانی کا کہنا تھا کہ پاکستان اور ایران سمجھتے ہیں کہ علاقائی مسائل سیاسی طور پر بات چیت کے ذریعے حل ہو سکتے ہیں۔

انہوں نے پاکستان کے کردار کی بھی تعریف کی۔

صدر روحانی کا کہنا تھا کہ یمن میں فوری طور پر جنگ بندی کا اعلان کیا جانا چاہئیے جبکہ وہاں کے عوام کی مدد کی جانی چاہیے۔

ان کے بقول یہ اقدام خطے میں استحکام اور ترقی کے لیے ایک مثبت آغاز ہو گا۔

صدر روحانی نے باور کرایا کہ اگر کوئی ملک سمجھتا ہے کہ خلیج فارس میں عدم استحکام پیدا کرے گا اور اس کے جواب میں کوئی کارروائی نہیں ہو گی تو وہ غلطی پر ہے۔

ایرانی صدر کا کہنا تھا کہ امریکا کی جانب سے ایران پر عائد پابندیوں کے معاملے پر بھی وزیر اعظم عمران خان کے ساتھ تبادلہ خیال کیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ امریکہ کو چاہیئے کہ وہ ایران پر عائد پابندیاں اٹھائے اور نیوکلیئر معاہدے کی پاسداری کرے۔

حسن روحانی نے کہا ہے کہ پاکستان اور ایران مل کر خطے کے دیرینہ مسائل کے حل کے لیے پرخلوص کوشش کر سکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ دونوں ممالک کے رہنماؤں کے مابین ملاقاتیں اور اہم معلومات پر تبادلہ خیال خطے میں خطرات کو ختم کرنے کے لیے معاون ثابت ہو گا۔

اس سے قبل تہران پہنچنے کے بعد وزیر اعظم عمران خان کی ایرانی صدر حسن روحانی سے ملاقات ہوئی۔ وزیر اعظم کے دفتر سے جاری بیان کے مطابق عمران خان نے صدر روحانی کے ساتھ وسیع امور پر مشاورت کی۔

ملاقات کے دوران وزیر اعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ پاکستان ایران کے ساتھ دوطرفہ تعلقات کو انتہائی اہمیت کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔

عمران خان نے کہا کہ پاکستان خطے میں امن اور سلامتی کے قیام میں کردار ادا کرنا چاہتا ہے۔

پاکستان کے وزیر اعظم اور ایران کے صدر کی حالیہ دنوں میں یہ دوسری ملاقات ہے۔ قبل ازیں دونوں رہنماؤں میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے موقع پر ملاقات ہوئی تھی۔

بعد میں وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنائی سے بھی ملاقات کی۔ اس ملاقات میں عمران خان نے کشمیریوں کیلئے استصواب رائے کے حق کی حمایت کرنے پر ان کا شکریہ ادا کیا۔

پاکستانی وزیر اعظم ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ سید علی خامنائی سے ملاقات کر رہے ہیں
پاکستانی وزیر اعظم ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ سید علی خامنائی سے ملاقات کر رہے ہیں

وزیر اعظم عمران خان نے گزشتہ ماہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے دوران ریاض اور تہران کے درمیان ثالث کا کردار ادا کرنے کی پیشکش کی تھی۔

عمران خان کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے ان کی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور سعودی ولی عہد محمد بن سلمان سے بات چیت ہوئی ہے۔

ترجمان دفتر خارجہ کے مطابق وزیر اعظم عمران خان کا دورہ خطے میں امن و استحکام کے فروغ کے اقدامات کا حصہ ہے۔

ترجمان نے مزید کہا تھا کہ ایرانی قیادت سے ملاقاتوں میں خلیج میں امن اور سلامتی سے متعلق مسائل پر بات چیت سمیت وزیر اعظم عمران خان اہم علاقائی اور سیاسی تبدیلیوں پر بھی تبادلہ خیال کریں گے۔

حکام کے مطابق اس کے علاوہ وزیراعظم دو طرفہ معاملات اور کشمیر کی حالیہ صورت حال سے متعلق بھی بات چیت کریں گے۔

گزشتہ روز ایرانی وزیرخارجہ جواد ظریف نے کہا تھا کہ وہ ایران اور سعودی عرب کے درمیان ثالثی کے لیے پاکستان کی کوششوں کا خیر مقدم کرتے ہیں۔

وزیر اعظم کی معاون خصوصی برائے اطلاعات و نشریات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کا کہنا ہے کہ وزیراعظم عمران خان کا دورہ ایران خلیجی خطے میں امن و سلامتی کا پیش خیمہ ثابت ہوگا۔

ٹوئٹر پر اپنے ایک بیان میں ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے کہا کہ خطے میں کشیدگی کے خاتمے کے لیے ثالثی کا کردار امت مسلمہ اور دنیا کی طرف سے وزیر اعظم عمران خان کی قائدانہ صلاحیتوں پر اعتماد کا مظہر ہے۔

’امریکہ ایران سے جنگ نہیں چاہتا‘
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:38 0:00

یاد رہے کہ گزشتہ روز ایرانی حکومت کے ترجمان علی ربیعی نے دعویٰ کیا تھا کہ وزیر اعظم عمران خان نے ایران کو سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کا پیغام پہنچایا ہے جس میں ریاض کی جانب سے تہران کو بات چیت کی پیش کش کی گئی ہے۔

وزیر اعظم عمران خان نے گزشتہ ماہ نیو یارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 74 ویں اجلاس کے موقع پر بھی ایرانی صدر حسن روحانی کے ساتھ ملاقات کی تھی۔

وزیر اعظم کے دورہ میں تبدیلی

خیال رہے کہ وزیر اعظم عمران خان کو دورہ ایران کے بعد تہران سے ہی سعودی عرب روانہ ہونا تھا تاہم اس میں آخری وقت میں تبدیلی واقع ہوئی ہے۔

پاکستان کے وزیر اعظم دورہ ایران کے بعد اب سعودی عرب نہیں جائیں گے بلکہ اسی روز وطن واپس پہنچیں گے۔

وزیر اعظم عمران خان کے دورے میں تبدیلی کی وجہ 14 اکتوبر کو روسی صدر ولادیمر پیوٹن کی سعودی عرب آمد بتائی جا رہی ہے جس کے باعث اب وزیر اعظم آئندہ ہفتے میں کسی روز سعودی عرب جائیں گے۔

واضح رہے کہ ریاض اور تہران کے درمیان کشیدگی گزشتہ ماہ سعودی عرب کی سب سے بڑی آئل ریفائنری آرامکو کی تنصیبات پر حملوں کے بعد عروج پر پہنچ چکی ہے۔

ان حملوں کی ذمہ داری ایرانی نواز یمن کے حوثی باغیوں نے قبول کی تھی۔ تاہم امریکہ اور سعودی عرب نے حملوں کا ذمہ دار براہ راست ایران کو ٹھہرایا تھا۔

دوسری جانب پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان کے سعودی قیادت کے ساتھ تعلقات میں خاصی بہتری دیکھنے میں آئی ہے اور وزیراعظم کے امریکہ میں جنرل اسمبلی خطاب کے لیے جانے سے قبل بھی انہوں نے سعودی عرب کا دورہ کیا تھا۔ اس دورے کے بعد امریکہ جانے کے لیے وزیراعظم کمرشل فلائٹ کے ذریعے جانا چاہتے تھے لیکن سعودی ولی عہد نے انہیں اپنا خصوصی طیارہ دیا جس پر وہ امریکہ گئے تھے۔

تاہم وزیراعظم ایک ایسے موقع پر دونوں ممالک کے دورے پر ہیں جب ایران اور سعودی عرب کے تعلقات انتہائی کشیدہ ہیں۔ ایران کے سرکاری ٹی وی نے دو روز قبل دعویٰ کیا تھا کہ جدہ کی بندرگاہ کے قریب ایک ایرانی تیل بردار جہاز کو میزائلوں سے نشانہ بنایا گیا جس سے اس میں آگ لگ گئی۔

ایرانین نیشنل کمپنی کے مطابق دھماکے کے باعث دو تیل بردار جہازوں کو آگ لگ گئی۔ میزائلوں کا نشانہ بننے والا جہاز جدہ سے 60 کلومیٹر بحیرہ احمر میں موجود تھا۔

تین روز قبل پاکستان کے دفتر خارجہ کے ترجمان ڈاکٹر فیصل نے اعلان کیا تھا کہ اس بات کا امکان ہے کہ وزیر اعظم عمران خان ایران اور سعودی عرب کا دورہ کریں گے۔

یہ بھی پڑھیے

XS
SM
MD
LG