اقوامِ متحدہ نے ماحولیات سے متعلق اپنی ایک نئی رپورٹ میں خبردار کیا ہے کہ سمندروں اور منجمد خطوں پر موسمیاتی تبدیلیوں کے تباہ کن اثرات مرتب ہو رہے ہیں جن سے دنیا کو شدید خطرات لاحق ہیں۔
اقوامِ متحدہ کے سائنس دانوں کے پینل کے مطابق گلیشیئرز کے پگھلنے کی وجہ سے سمندر کی سطح مسلسل بلند ہو رہی ہے جس سے کرہ ارض پر تمام جانداروں کو خطرات کا سامنا ہے۔
امریکہ کے شہر نیو یارک میں ہونے والی اقوامِ متحدہ کی 'کلائمٹ ایکشن سمِٹ 2019' کے اختتام پر بدھ کو جاری ہونے والی 'انٹر گورنمنٹ پینل رپورٹ' میں خبردار کیا گیا ہے کہ آب و ہوا کی تبدیلیوں کی وجہ سے دنیا کے درجہ حرارت میں اضافہ ہو رہا ہے اور سمندروں کی سطح بلند ہو رہی ہے۔
رپورٹ کے مطابق ماحولیاتی تبدیلیوں کے زیرِ اثر گلیشیئرز تیزی سے پگھل رہے ہیں اور دنیا کا موسم گرم ہوتا جا رہا ہے۔
آب و ہوا کی تبدیلیوں سے متعلق 'انٹر گورنمنٹ پینل' کی ایک سال میں جاری کردہ یہ تیسری رپورٹ ہے۔
حالیہ رپورٹ میں درجہ حرارت میں اضافے کے سمندروں کی سطح اور منجمد خطوں پر اثرات کو پریشان کن قرار دیا گیا ہے۔
رپورٹ میں متنبہ کیا گیا ہے کہ اگر عالمی سطح پر درجہ حرارت میں کمی نہیں آتی تو اس صدی کے آخر تک سمندروں کی سطح ایک میٹر تک بلند ہو جائے گی۔
اس بات کی بھی نشاندہی کی گئی ہے کہ سمندر کی سطح بڑھنے سے نشیبی علاقوں میں رہنے والے لگ بھگ 70 کروڑ لوگ متاثر ہو سکتے ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سمندروں کی سطح میں تبدیلی کی وجہ سے مچھلی کی پیداوار میں کمی ہوگی جب کہ گلیشیئرز میں بھی کمی آئے گی۔
سائنس دانوں نے خبردار کیا ہے کہ آب و ہوا کی تبدیلی کے زیرِ اثر آنے والے وقت میں دنیا کو زیادہ طاقت ور سمندری طوفانوں کا سامنا کرنے پڑے گا اور پہلے جو سمندری طوفان 100 برس میں ایک بار آتے تھے، 2050 تک وہ ہر سال آیا کریں گے۔
رپورٹ کے مطابق ایک کروڑ سے زیادہ آبادی والے دنیا کے آدھے شہر ساحلِ سمندر پر آباد ہیں جو ان تبدیلیوں سے شدید متاثر ہوں گے۔
رپورٹ میں پیش گوئی کی گئی ہے کہ آب و ہوا کی تبدیلیوں سے اجناس کی پیداوار، ماحول اور بین الاقوامی معیشت متاثر ہوں گے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ درجہ حرارت میں اضافے کا سبب بننے والی گیسوں کے اخراج پر قابو پاکر ماحولیاتی تبدیلیوں کے بدترین اثرات سے محفوظ رہا جا سکتا ہے۔
رپورٹ کے مصنفین میں شامل پرنسٹن یونیورسٹی کے پروفیسر مائیکل اوپن ہیمیئر کا کہنا ہے کہ ہمارے سمندر اور منجمد خطے مشکل میں ہیں جس کا مطلب ہے کہ ہم بھی مشکل میں ہیں۔
درجہ حرارت میں اضافہ
رپورٹ مرتب کرنے والے سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ 1970 کے بعد سے سمندروں کے درجہ حرارت میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے۔ ان کے بقول پچھلی دہائیوں کے دوران 90 فی صد اضافی حرارت پانی میں جذب ہو جاتی تھی جو درجہ حرارت میں اس اضافے کی وجہ بن رہا ہے۔
رپورٹ کے مطابق درجہ حرارت میں ہونے والے اضافے کی وجہ سے 2007 سے 2016 کے درمیان انٹارٹیکا سے پگھلنے والی برف کی مقدار پچھلے 10 برس کے مقابلے میں تین گنا زیادہ ہے۔
حل کیا ہے؟
رپورٹ بنانے والے پینل کے سربراہ ہوسنگ لی کا کہنا ہے کہ اگر ہم کاربن کے اخراج میں تیزی سے کمی لائیں تو مستقبل میں رونما ہونے والی ان ماحولیاتی تبدیلیوں سے نمٹا جا سکتا ہے۔
رپورٹ میں شامل سائنس دانوں کا خیال ہے کہ آب و ہوا کی تبدیلیوں سے بچنے کے لیے درکار اقدامات کے لیے عوام کو حکمرانوں پر دباؤ بڑھانا ہوگا۔
یاد رہے کہ گزشتہ سال جاری ہونے والی رپورٹ میں 2030 تک کاربن کے اخراج میں 45 فی صد تک کمی لانے کا مشورہ دیا گیا تھا۔
پینل میں شامل ڈاکٹر جین پیئر گیٹوسو کا کہنا ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ پچھلے ہفتے نوجوانوں کے مظاہروں کے بعد یہ اس کام کے لیے بہترین موقع ہے۔
یاد رہے کہ یہ رپورٹ نیو یارک میں منعقدہ اقوامِ متحدہ کے آب و ہوا سے متعلق اجلاس کے بعد جاری کی گئی ہے۔ اس اجلاس میں ماحولیات کے تحفظ کے لیے سرگرم 16 سالہ کارکن گریٹا تھونبرگ نے ایک متاثر کن تقریر کی تھی جسے سوشل میڈیا پر بہت پزیرائی ملی تھی۔
تھونبرگ اور دیگر 15 نوجوانوں نے پیر کو اقوامِ متحدہ میں پانچ ممالک ارجنٹائن، برازیل، فرانس، جرمنی اور ترکی کے خلاف باضابطہ شکایت درج کرائی تھی کہ یہ ممالک 2015 میں ہونے والے پیرس معاہدے کے اہداف پر عمل نہیں کر رہے۔