گلگت بلتستان کی وادی ہنزہ کے رہائشی ساجد اللہ گزشتہ ہفتے اپنے خاندان کے ہمراہ اس وقت نقل مکانی پر مجبور ہوئے جب وادی ميں 'شسپر گليشیئر' سرکنے کی وجہ سے قريبی نالے ميں طغيانی آ گئی تھی۔
طغیانی کی وجہ سے آنے والے سيلاب کا پانی اگرچہ ان کے گھر میں داخل تو نہیں ہوا، لیکن اس کی وجہ سے وادی ہنزہ کے محلہ 'ہروم' ميں قائم گھروں ميں دراڑيں پڑ گئيں۔
ساجد اللہ نے وائس آف امريکہ سے بات کرتے ہوئے بتايا کہ حکام نے انہيں اپنے گھر کے ساتھ ہی رہائش کے لیے خيمے فراہم کر دیے ہيں جہاں وہ اپنے خاندان کے ديگر افراد کے ہمراہ قریبی نالے میں آنے والی طغیانی پر نظر رکھے ہوئے ہيں تاکہ مزيد طغيانی کی صورت ميں وہ کسی محفوظ مقام پر منتقل ہو سکیں۔
وادی ہنزہ کے علاقے ہروم کے علاوہ 'شير آباد' میں قائم 30 کے قريب گھر بھی قریبی نالے میں آنے والی طغیانی کی وجہ سے شديد خطرات سے دو چار ہيں۔
ساجد اللہ کو خدشہ ہے کہ اگر نالے ميں پھر سے طغيانی آئی تو ان کا گھر سيلاب کی نذر ہو جائے گا کيوں کہ ان کے گھر اور نالے کے درميان صرف 10 فٹ کا فاصلہ رہ گيا ہے۔
ماہرين کے مطابق شسپر گليشیئر گلگت بلتستان کے ان درجنوں گليشیئرز ميں سے ايک ہے جو مختلف وجوہات کی وجہ سے خطرے سے دوچار ہیں۔ اس گلیشیئر میں آنے والی تبدیلیوں کی وجہ سے مقامی آبادی ميں خوف و ہراس پایا جاتا ہے۔
'گلگت بلتستان ڈيزاسٹر مينجمنٹ اتھارٹی' کے ڈائريکٹر جنرل فريد احمد نے وائس آف امريکہ کو بتايا ہے کہ گزشتہ برس پہلی مرتبہ 24 نومبر کو انہيں شسپر گليشیئر کے تيزی سے پگھلنے کا علم ہوا۔
فرید احمد کا کہنا تھا کہ فضائی نقشے کے مطابق اس علاقے کے خدوخال انگريزی کے حرف 'ای' جیسے ہیں جس کے ايک جانب شسپر گليشیئر ہے۔ دوسری جانب مچوہر گليشئیر ہے۔
ان کے بقول جہاں ان دونوں گليشیئرز کا پانی ملتا تھا وہاں تک شسپر گليشیئر پھيل کر تالاب کی شکل اختيار کر گيا ہے اور گليشیئر کے سرکنے اور پگھلنے کے عمل سے وہاں مختلف جھيليں وجود ميں آ چکی ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ گزشتہ سال جون ميں شسپر پر بننے والی جھيل گرمی کی شدت برداشت نہیں کر سکی تھی جس کی وجہ سے 5000 کيوسک فٹ پانی نيچے کی طرف آيا۔ جس نے شاہراہ قراقرم کے دو چھوٹے حصوں کو متاثر کيا اور مقامی آبادی کو بھی نقصان پہنچایا۔
فريد احمد کے مطابق گلگت بلتستان ميں خطرے سے دوچار گليشیئرز کی تعداد درجنوں ميں ہے جو مختلف علاقوں ميں آباديوں کے قريب واقع ہيں۔
فريد احمد بتاتے ہيں کہ گزشتہ ہفتے علاقے ميں گرمی کی شدت ميں اضافے کی وجہ سے شسپر گليشیئر پر قائم جھيل سرک گئی تھی جس کی وجہ سے ساجد اللہ اور اُن جيسے درجنوں افراد کو اپنے گھروں سے محفوظ مقام پر منتقل ہونا پڑا۔
ان کے مطابق اس وقت جھيل ميں 3500 کيوسک پانی موجود تھا لیکن جب طغیانی آئی تو پانی اپنا راستہ بناتا ہوا شاہراہ قراقرم کے ایک پل سے ٹکرایا جس کے باعث شاہراہ چھ گھنٹوں تک بند رہی۔
مقامی افراد کا کہنا ہے کہ نالے میں آنے والی طغیانی کے باعث علاقے کے 'ہائيڈرو پاور اسٹيشن' کو بھی کافی نقصان پہنچا جس کی وجہ سے مقامی لوگ ابھی تک پانی کی ترسيل کے لیے گھنٹوں لائنوں ميں کھڑے رہتے ہيں۔
فريد احمد کے مطابق شسپر کا جھکاؤ ڈھائی کلو ميٹر نيچے وادی کی جانب ہے اور جب تک يہ ڈھائی کلوميٹر پر پھيلی ہوئی برف پگھل کر نيچے نہيں آ جاتی، اس وقت تک ہر سال علاقے کے لیے يہ خطرہ برقرار رہے گا۔
انہوں نے مزيد بتايا کہ اوپر سے نيچے تک اس گلیشیئر ميں بہت زيادہ دراڑيں پڑ چکی ہیں۔
فريد احمد کے بقول موسمياتی تبديليوں کا براہِ راست اثر گليشیئرز پر پڑتا ہے۔ رواں سال مئی کے وسط تک موسم سرد تھا لیکن اچانک گرمی پڑنے سے گلیشیئر تیزی سے پگھلنا شروع ہوا جس سے سیلاب کی صورتِ حال پیدا ہو گئی۔
'گليشیئر کے سرکنے کا تعلق موسمیاتی تبديلیوں سے ہے'
گلگت بلتستان ميں ادارۂ تحفظِ ماحوليات کے ڈائريکٹر شہزاد حسن شگری کے مطابق گليشیئرز کے سرکنے کا تعلق عالمی سطح پر موسمیاتی تبديلیوں سے ہے۔
وائس آف امريکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتايا کہ 'گلوبل وارمنگ' کی وجہ سے يہ عمل اب تيزی اختيار کر گيا ہے۔
انہوں نے بتايا کہ شسپر گليشیئر پہاڑ کے اوپر کی سطح پر نہيں ہے بلکہ يہ وادی کے درميان واقع ہے اور ہنزہ ميں قائم آبادی کے اوپر ہے۔ خطرناک صورتِ حال یہ ہے کہ اس آبادی کے قریب سے ہی شاہراہ قراقرم گزر رہی ہے۔
شہزاد شگری نے کہا کہ عالمی سطح پر درجہ حرارت میں اضافے کے ساتھ ساتھ مقامی سياح بھی ان گليشیئرز کے تیزی سے پگھلنے میں اپنا حصہ ڈالتے ہیں۔ گاڑيوں کے ذريعے پھيلنے والی آلودگی کی وجہ سے بھی درجہ حرارت بڑھ جاتا ہے۔
ان کے بقول موسمِ سرما ميں گلگت بلتستان ميں جنگلات کی لکڑی کو بطور ايندھن استعمال کيا جاتا ہے جس کا دھواں آلودگی پھيلاتا ہے۔ البتہ کرونا وائرس کے باعث لاک ڈاؤن کی صورتِ حال کی وجہ سے ماحول میں مثبت تبدیلیاں بھی آئی ہیں۔
شہزاد شگری کے بقول لاک ڈاؤن کی وجہ سے ماحول صاف ستھرا ہوا ہے جو حوصلہ افزا ہے لیکن یہ صورت زیادہ دیر برقرار نہیں رہے گی۔
دوسری طرف مقامی لوگوں نے خبردار کیا ہے کہ اگر گلیشیئرز مستقبل میں بھی اسی طرح پگھلتے رہے تو دریائے ہنزہ بند ہونے کی وجہ سے بننے والی عطا آباد جھیل جیسی ایک اور جھیل بن سکتی ہے جس سے لامحالہ مقامی آبادی بھی متاثر ہو گی۔
مقامی لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ شسپر گلیشیئر کے سرکنے اور پگھلاؤ کی وجہ سے شاہراہ قراقرم کو بھی شدید خطرات لاحق ہیں۔
ياد رہے کہ گلگت بلتستان کو چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کا گيٹ وے سمجھا جاتا ہے۔ ماہرين نے خبردار کيا ہے کہ گلگت بلتستان ميں موسمياتی تبديليوں کی وجہ سے قراقرم ہائی وے کی بندش پورے منصوبے کو اپنی لپيٹ ميں لے سکتی ہے۔