ملک کے ایک سرکاری ادارے پاکستان کونسل آف ریسرچ ان واٹر ریسورسز کی ایک رپورٹ کے مطابق، 2025 تک ملک پانی کی شدید قلت سے دوچار ہو سکتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق، 1990 میں پاکستان کے پانی کے وسائل پر دباؤ پڑنا شروع ہوا اور 2005 سے ملک کو پانی کی قلت کا سامنا ہے۔
رپورٹ کے مطابق اگر یہی صورتحال جاری رہی تو اس بات کا قوی امکان ہے کہ آئندہ چند سالوں میں ملک میں خشک سالی کی صورتحال پیدا ہو جائے گی۔
پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ 2016 میں فی کس پانی کی دستیابی لگ بھگ ایک ہزار مکعب فٹ ہے جبکہ 1951 میں یہ مقدار پانچ ہزار مکعب فٹ سے زیادہ تھی۔
حکام کے مطابق اس کی وجہ آبادی میں تیزی سے اضافہ اور ملک میں پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت میں کمی ہے۔
تاہم پاکستان کے محکمہ موسمیات کے ڈائریکٹر ڈاکٹر غلام رسول نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ یہ رپورٹ آبادی میں اضافے اور ملک میں پانی کے دستیاب وسائل کو مد نظر رکھتے ہوئے تیار کی گئی ہے اور اس میں موسمیاتی تبدیلیوں کے امکان کو شامل نہیں کیا گیا۔
’’موسمیاتی تبدیلی کے منظر نامے بتا رہے ہیں کہ اگلے 30 سالوں میں درجہ حرارت بڑھیں گے اور مون سون میں اضافہ ہو گا۔ سردیوں میں برفباری کی نسبت، بارش کی مقدار زیادہ ہونے امکان زیادہ ہے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ ’’اس اعتبار سے پاکستان کے موسمیاتی نظاموں سے منسلک کُل آبی وسائل کم نہیں ہوں، وہ بڑھیں گے۔‘‘
تاہم انہوں نے اس بات سے اتفاق کیا کہ ملک میں پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت بہت کم ہے۔ ڈاکٹر غلام رسول نے بتایا کہ ملک کے دو بڑے ڈیم صرف ایک ماہ تک کے لیے پانی ذخیرہ کر سکتے۔
انہوں نے کہا کہ اگرچہ ملک میں پانی ذخیرہ کرنے کے لیے چھوٹے، درمیانے اور بڑے سائز کے ڈیم تعمیر کیے جا رہے ہیں مگر بڑے ڈیم مثلاً بھاشا دیامر اور داسو ڈیم مون سون کے علاقے سے باہر ہیں اور ان کے پانی کا ذریعہ پگھلتے ہوئے گلیشئیر ہوں گے۔
’’تو یہ لمحہ فکریہ کے پاکستان کی منصوبہ بندی میں۔ خاص طور پر مون سون کے علاقوں میں بارشوں میں اضافے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس قیمتی وسیلے کو ذخیرہ کرنا ہوگا، تاکہ وہ خشک موسم میں آب پاشی میں کام آئے اور اس کے ساتھ ساتھ سیلاب بھی کنٹرول ہو اور اس سے توانائی بھی پیدا ہو۔‘‘
ڈاکٹر غلام رسول کا اصرار تھا کہ اگر پاکستان اپنی پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت میں اضافہ کر لے تو پاکستان کو آئندہ سالوں میں پانی کی قلت کا سامنا نہیں ہو گا۔
آبی وسائل کی معلومات رکھنے والے اظہر لاشاری نے کہا کہ ملک میں پانی کی قلت کی اصل وجہ پانی کے استعمال کے طریقے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جب دریاؤں کے بالائی علاقوں کے لوگ پانی زیادہ استعمال کر لیتے ہیں تو زیریں علاقوں میں پانی کی قلت پیدا ہوتی ہے۔
’’اگر ملک میں کوئی قلت ہے تو وہ ہر جگہ کے لوگوں کو ایک جیسا متاثر نہیں کر رہی، مختلف جگہوں پر اس کے مختلف اثرات ہیں۔ میرا جو بنیادی نقطہ ہے وہ یہ ہے کہ پانی کی جو قلت ہے وہ قدرت کی طرف سے نہین بلکہ انسان کی پیدا کردہ ہے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ پانی کی قلت کو ختم کرنے اور دستیاب وسائل کو ذخیرہ کرکے فائدہ اٹھانے کے لیے ہر علاقے میں مقامی سطح پر لوگوں کی رہنمائی سے اس مسئلے کا حل ڈھونڈنا ہو گا۔