Abdul Sattar Kakar reports for VOA Urdu Web from Quetta
پولیس کے تین اعلیٰ عہدیداروں پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دے دی گئی ہے جو خودکش حملے کی تحقیقات کر رہی ہے۔
ہلاک ہونے والوں میں دو پولیس اہلکار اور نجی ٹی وی چینل کا ایک کیمرہ مین جب کہ زخمیوں میں بھی صحافی اور پولیس اہلکار شامل ہیں۔
’’حکومت کی طر ف سے اساتذہ کو تحفظ فراہم کرنے میں غفلت بھر تنے کی وجہ سے وہ سڑکوں پر آنے پر مجبور ہو ئے ہیں۔ ‘‘
بم سڑک کے کنارے کھڑی ایک سائیکل میں نصب کیا گیا تھا اور اس کا ہدف خضدار کے ضلعی پولیس افسر ...
رواں ہفتے مارے جانے والے افراد میں ایک ریٹائرڈ ڈی ایس پی سمیت ہزارہ برادری کے لوگ بھی شامل ہیں
سپیشلسٹس اور دیگر ڈاکٹروں کی طر ح نو ے فیصد نر سز بھی سکیورٹی اور دیگر وجوہات کی بنا ء پر کو ئٹہ شہر سے باہر خدمات انجام دینے کو تیار نہیں
پولیس نے 21افراد کو اس واقعے کی الزام میں گرفتار کیا تھا اور انسداد دہشت گردی کی عدالت میں ان کے خلاف باقاعدہ مقدمہ چلایا گیا۔
صوبے کے 30 میں سے 18 اضلاع سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو اب تک یہ پتا ہی نہیں ہے کہ کہیں وہ تو یر قان میں مبتلا نہیں ہے۔
مسلم لیگ (ن) کے سابق ضلعی صدر عبدالعزیز عمرانی اور ان کے ایک محافظ محمد ظفر کو گولیاں ما ر کر ہلاک کر دیا گیا
ضلعی پو لیس افسر عبد العزیز کُرد کا کہنا ہے کہ دستی بم کے حملے کے سلسلے میں اب تک کسی کو گرفتار نہیں کیا جاسکا ہے ۔
سر حدکی بندش سے و ہ ہزاروں مزدور لو کل ٹر انسپورٹرز اور دُوکاندار،جن کا انحصارسرحد کے آرپار ہو نے والی تجارت پر ہے ،سخت معاشی مشکلات کا شکار ہوگئے تھے۔
تمام سر کاری سکولوں میں صوبے کے30 اضلاع کے972045 طلبا و طالبات تعلیم حاصل کر رہے ہیں
عینی شاہدین نے بتایا کہ اس بم دھماکے کا ہدف بظاہر فرنٹیئر کور کی ایک گاڑی تھی