بلو چستان میں امن و امان کی صورتحا ل ایک عر صے سے خراب ہے اور اس خراب صورتحال کے اثرات زندگی کے تمام شعبوں پر مر تب ہو ئے ہیں تاہم شعبہ تعلیم امن و امان کی خراب صورتحال اور اساتذہ کی ٹارگٹ کلنگ سے سب سے زیادہ متاثر ہو ا ہے۔صوبے میں شر ح خواند گی کا تنا سب پنجاب سندھ اور سر حد سے ہمیشہ کم رہا ہے۔
صوبائی محکمہ تعلیم کے مطابق اس وقت شرح خواند گی کا تناسب صرف 37 فیصد ہے ۔ اس طر ح صوبے کے قیام کو 40 سال ہو نے کے بعد بھی صورتحال بہتر ہو نے کے بجائے ابتر ی کی طر ف جارہی ہے ۔ بلوچستان میں اس وقت کُل 12151سکول ہیں جن میں پر ائمر ی کے 10668 ، مڈل درجے کے 889 اور سیکنڈری درجے کے 594 اسکول ہیں۔ ان میں چھ فیصد سکولوں کی عمارتین ہی نہیں ہیں اس طر ح نو فیصد سکولوں میں بجلی اور پینے کا صاف پانی اور لیٹر ینوں کا انتظام نہیں ہے۔
ان تمام سر کاری سکولوں میں صوبے کے30 اضلاع کے972045 طلبا و طالبات تعلیم حاصل کر رہے ہیں ان نو لاکھ سے زائد طلباکے لئے 44523 اسا تذہ نئی نسل کو زیور تعلیم سے آراستہ کر رہے ہیں جن میں مر د اساتذہ 30672 اور خواتین اساتذہ 13851 ہیں۔
صوبے میں پر 1750 پر ائیویٹ سکو ل ہیں جن میں سات ہزار کے قر یب طلبا تعلیم حاصل کر رہے ہیں صورتحال بہتر بنانے کے لئے بلو چستان کے وزیر تعلیم طاہر محمو د کا کہنا ہے کہ معیارتعلیم کو بہتر بنانے کے لئے حکومت تر جیحی بنیادوں پر کام کررہی ہے ۔
بلو چستان میں کالجوں کی حالت بھی نہایت ہی خراب ہے صوبے میں 87 کالج ہیں جن میں 47839 طلبا و طالبات زیر تعلیم ہیں ان طلبا و طالبات کو دوہزار198 اساتذہ پڑھاتے ہیں جس کا تناسب ایک اُستاد اور2174 طالب علم بنتا ہے۔
نیشنل اکنامک کی ایک سر وے کے مطابق بلو چستان میں گزشتہ سات سالوں میں شر ح خواند گی میں صر ف دو فیصد اضافہ ہو اجو ایک تشویشنا ک امر ہے ۔تعلیم کے مید ان میں تجر بہ رکھنے والے ماہر ین کا کہنا ہے اس خراب صورتحا ل کو بہتر بنانے اورشر ح خواندگی بڑھانے کے لیے صوبے میں تعلیم کے فر وغ کے لیے جنگی بنیادوں پر کام کر ناہو گا ۔