بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں جمعے کے روز ہونے والے خود کش بم دھماکے میں دو ڈی ایس پی اور ایک صحافی سمیت 11افراد کی ہلاکت اور ٹارگٹ کلنگ کے واقعات کے خلاف مرکزی انجمن تاجران کی اپیل پر ہفتے کو شٹرڈاؤن ہڑتال کی گئی۔
شہر کے تمام چھوٹے بڑے تجارتی مراکز بند رہے اور سڑکوں پر ٹریفک بھی معمول سے کم رہی تاہم کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا۔
گذشتہ روز ہونے والی فائرنگ کے باعث پیدا ہونے والی کشیدگی کے باعث شہر کے تمام تعلیمی ادارے بند رکھنے کے اعلان کے بعد کوئٹہ اور مضافات میں تمام تعلیمی ادارے بند رہے۔
کوئٹہ پولیس کے ایک اعلیٰ عہدیدار غلام شبیر شیخ کے مطابق پولیس کے تین اعلیٰ عہدیداروں پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دے دی گئی ہے جو خودکش حملے کی تحقیقات کر رہی ہے۔انھوں نے بتایا کہ حملہ آور کی عمر 20سے 22سال کے درمیان تھی ۔ ان کے مطابق چند مشتبہ افراد کو حراست میں بھی لیا گیا ہے۔
دریں اثناء ہفتے کو کوہاٹ اور جمعہ کو کوئٹہ میں ہونے والے بم حملوں میں ہلاک ہونے والے مقامی ٹی وی کے نمائندے عظمت بنگش اور کیمرہ مین ملک عارف کی ہلاکت اور پانچ صحافیوں کے زخمی ہونے کے خلاف بھی کوئٹہ میں نجی ٹی وی چینلوں کے کیمرہ مینوں،رپورٹروں اور اخباری صنعت سے وابستہ دیگر لوگوں نے جلوس نکالا۔
واضح رہے کہ جمعے کو کوئٹہ میں ہونے والے خودکش حملے کی ذمہ داری لشکر جھنگوی کے ترجمان علی شیر حیدری نے پریس کلب اور مقامی اخبارات کے دفاتر میں فون کرکے قبول کی ہے۔