غزہ میں امداد کی فراہمی میں اضافہ، لوگوں کی تکالیف کہاں تک کم ہوئی ہیں؟

  • اسرائیل نے کہا ہے کہ وہ روزانہ 600 امدادی ٹرکوں کو غزہ جانے دے گا۔
  • جنگ بندی کے بعد سے ہر ہفتے کم از کم 4 ہزار ,200 ٹرک غزہ کی پٹی میں داخل ہو رہے ہیں۔
  • فلسطینیوں اور امدادی کارکنوں کا کہنا ہے کہ تمام لوگوں تک امداد پہنچنانے کو یقینی بنانا ایک مشکل کام ہے۔
  • اگرچہ خوراک کی اشیا کی قیمتوں میں کمی آرہی ہے، تاہم آٹے اور پکانے کے تیل کی قیمتیں جنگ سے پہلے کی قیمتوں سے اب بھی تین گنا زیادہ ہیں۔

حماس اور اسرائیل کے درمیان جاری جنگ بندی کے پہلے مرحلے میں غزہ کی پٹی میں گزشتہ دو ہفتوں میں امداد پہنچانے میں بڑا اضافہ دیکھا گیا ہے جس سے 15 ماہ کی لڑائی میں بھوک، بڑے پیمانے پر نقل مکانی اور تباہی کے شکار علاقوں میں واپس آنے والے فلسطینیوں کی تکالیف میں کمی آرہی ہے۔

تاہم فلسطینیوں اور امدادی کارکنوں کا کہنا ہے کہ تمام لوگوں تک امداد پہنچنانے کو یقینی بنانا ایک مشکل کام ہے۔ ساتھ ہی جنگ بندی کے چھ ہفتے کے پہلے مرحلے کے بعد ممکنہ طور پر لڑائی پھر سے چھڑنے کے خدشات بھی منڈلا رہے ہیں ۔

جنگ بندی معاہدے کے تحت فلسطینی عسکریت پسند تنظیم حماس اسرائیل سے اکتوبر 2023 میں اغوا کیے گئے یرغمالوں میں سے کچھ کو آزاد کر رہی ہے جس کے بدلے میں اسرائیل اپنی جیلوں سے سینکڑوں فلسطینی قیدیوں کو رہا کر رہا ہے۔

امریکہ، مصر اور قطر کی ثالثی میں طے پانے والے اس معاہدے کے مطابق اسرائیل نے کہا کہ وہ روزانہ 600 امدادی ٹرکوں کو غزہ جانے دے گا، جو کہ جنگ کے دوران محصور رہنے والے علاقے میں پہلے بھیجی جانے والے امدادی سامان کی تعداد میں ایک بڑا اضافہ ہے۔

دریں اثنا، اسرائیل کے وزیر اعظم نیتن یاہو اس ہفتے واشنگٹن میں امریکہ کے نئے صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کر رہے ہیں۔

SEE ALSO: امریکی ایلچی کی جنگ بندی معاہدے پر عمل درآمد اور اگلے مرحلے پر اسرائیل سے بات چیت

اسرائیل کا اندازہ ہے کہ جنگ بندی کے بعد سے ہر ہفتے کم از کم 4 ہزار ,200 ٹرک غزہ کی پٹی میں داخل ہو رہے ہیں۔

دوسری طرف انسانی ہمدردی کے لیے کام کرنے والے گروپ کہتے ہیں کہ تباہ شدہ سڑکوں، اسرائیل کی جانب سے سامان کا معائنہ کرنے اور جنگ میں نہ پھٹنے والے بموں کے خطرات امداد کی تقسیم کے عمل کو پیچیدہ بناتے ہیں۔

ہفتے کے روز ایک 68 سالہ شہری سمیر ابو ہولی غزہ کے شمالی علاقے جبالیہ میں خوراک تقسیم ہوتی دیکھ رہے تھے۔ یہ وہ مقام ہے جو متعدد اسرائیلی حملوں کے دوران زمین بوس ہو گیا تھا۔ اس جگہ ایک ماہ سے زائد عرصے کے لیے تقریباً تمام امداد بند کر دی گئی تھی۔

سمیر ابو ہولی نے کہا،"میرے 10 سے زیادہ بچے ہیں۔ ان سب کو دودھ اور خوراک کی ضرورت ہے۔ جنگ بندی سے پہلے ہم مشکل سے کھانا مہیا کرتے تھے۔ آج تھوڑا سا سکون ملا ہے۔"

جنوبی غزہ کی پٹی کے خان یونس میں، حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی کے نافذ ہونے سے پہلے فلسطینی، ایک خیراتی باورچی خانے سے پکا ہوا کھانا لینے کے لیے جمع ہیں. جنوری 17, فوٹو ۔

کتنی امداد پہنچائی جارہی ہے؟

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خوراک "ورلڈ فوڈ پروگرام" نے کہا کہ اس نے جنگ بندی کے نفاذ کے بعد پہلے چار دنوں کے دوران غزہ میں فلسطینیوں کو جو امداد پہنچائی ہے وہ جنگ کے دوران کسی بھی پورے مہینے کے دوران تقسیم کی جانے والی اوسط امداد سے زیادہ ہے۔

ڈبلیو ایف پی نے گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ جنگ بندی کے بعد سے غزہ میں 32,000 میٹرک ٹن سے زیادہ امداد کی ترسیل کی گئی۔

خبر رساں ادارے "ایسو سی ایٹڈ پریس" کے مطابق اس وقت غزہ میں امداد کی ترسیل تین گزر گاہوں سے ہورہی ہے جن میں شمال میں دو اور جنوب میں ایک راستہ شامل ہیں۔

SEE ALSO: فلسطینیوں کے امدادی ادارے پر اسرائیلی پابندی تباہ کن ہوگی: یواین، متبادل ادارے موجود ہیں: امریکہ

امدادی ایجنسیوں نے کہا کہ وہ بیکریاں کھول رہے ہیں اور زیادہ توانائی والے بسکٹ بھی دے رہے ہیں جبکہ حماس کی پولیس امن بحال کرنے میں مدد کے لیے سڑکوں پر لوٹ آئی ہے۔

فلسطینیوں کی تحریک آزادی کے حق کا تحفظ کرنے والی اسرائیلی تنظیم" گیشا" کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر تانیہ ہیری سمجھتی ہیں کہ "اس وقت سب کچھ کرنے کے لیے سیاسی رضا" موجود ہے۔

خوراک کی قیمتیں اب بھی بڑا مسئلہ ہیں

وسطی غزہ میں بوریج کے مقام پر ایک نوجوان خاتون ندین جوما نے کہا کہ امداد کھلے عام میسر نہیں ہے اور انہیں مارکیٹ سے اشیا خریدنی پڑتی ہیں جہاں ان کی قیمتیں بہت زیادہ ہیں۔

ورلڈ فوڈ پروگرام کے مطابق اگرچہ خوراک کی اشیا کی قیمتوں میں کمی آرہی ہے، تاہم آٹے اور پکانے کے تیل کی قیمتیں جنگ سے پہلے کی قیمتوں سے اب بھی تین گنا زیادہ ہیں۔

ندین جوما نے بتایا کہ ان کا خاندان ڈبوں میں بندسستی خوراک کھا رہا ہے۔ "ہمیں زیادہ خوراک، پانی، باورچی خانے، باتھ روم، اور خواتین کے استعمال کی اشیا کی ضرورت ہے۔"

غزہ میں جنگ 7 اکتوبر 2023 کو حماس کے اسرائیل پر حملےسے شروع ہوئی۔ اسرائیلی حکام کے مطابق اس دہشت گرد حملے میں لگ بھگ 1,200 افراد ہلاک ہو گئے جبکہ حماس ، جسے امریکہ اور کئی مغربی ملکوں نے دہشت گرد تنظیم قرار دیا ہوا ہے، 250 کے قریب افراد کو یرغمال بنا کر اپنے ساتھ غزہ لے گئی۔

Your browser doesn’t support HTML5

یرغمالوں کی رہائی اور غزہ میں امداد کی صورتحال

ادھر ، حماس کے زیر اہتمام غزہ کےصحت کے حکام کے مطابق علاقے میں اسرائیل کی جوابی کارروائی میں 47 ہزار سے زیادہ فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے شامل ہیں۔

اسرائیلی فوج کا دعویٰ ہے کہ ہلاک ہونے والوں میں 17000 عسکریت پسند شامل ہیں۔ لیکن اس نے اب تک اس بارے میں کوئی ثبوت پیش نہیں کیا ہے۔

(اس خبر میں شامل بیشتر معلومات اے پی سے لی گئی ہیں)