|
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں منگل کے روز فلسطینیوں کے لیے امدادی ادارے یو این آر ڈبلیو اے پر اسرائیلی پابندی کے اثرات زیر بحث آئے۔ اسرائیل نے ایک قانون کے تحت 30 جنوری سے اپنی سرزمین پر اس ادارے کی تمام سرگرمیاں ختم کرنے کا اعلان کر رکھا ہے۔
فلسطینیوں کے لیے اقوام متحدہ کے امدادی ادارےنے منگل کے روز سلامتی کونسل میں کہا کہ اس پر اسرائیل کی جمعرات سے شروع ہونے والی پابندی تباہ کن ہوں گی۔
اکتوبرکے ایک قانون کے تحت 30 جنوری سے اسرائیلی سرزمین پر، جس میں مشرقی یروشلم شامل ہے اور جس سے اسرائیل کے الحاق کو بین الاقوامی طور پر تسلیم نہیں کیا گیا، یواین آر ڈبلیو اے کی تمام کارروائیاں اور اسرائیلی حکام کے ساتھ تعلق ختم ہو جائے گا۔
اقوام متحدہ کے لیے اسرائیلی سفیر ڈینی ڈینن نے سلامتی کونسل میں کہا کہ یواین آر ڈبلیو اے لازمی طور پر اپنی تمام سرگرمیاں منجمد کرے اور یروشلم میں اپنے تمام احاطے خالی کر دے جہاں وہ کام کرتا ہے، جن میں ’معالوت دفنہ‘ اور’ کفرعقب‘ میں موجود املاک شامل ہیں ۔
اسرائیلی سفیر کا کہنا تھا کہ اسرائیل یواین آر ڈبلیو اے یا اس کی طرف سے کام کرنے والے کسی بھی شخص سے تمام تعاون، بات چیت اور رابطےختم کر دے گا۔
فلسطینیوں کے لیے اقوام متحدہ کے امدادی ادارے، یو این آر ڈبلیو اے، نے کہا ہے کہ غزہ کی پٹی اور مغربی کنارے میں بھی اس کی سرگرمیاں متاثر ہوں گی۔ کیونکہ وہ فلسطینی علاقوں اور پڑوسی عرب ممالک شام، لبنان اور اردن میں لاکھوں افراد کو امداد، صحت اور تعلیم سے متعلق خدمات فراہم کرتا ہے۔
یو این آر ڈبلیو اے کے کمشنر جنرل فلپ لازرینی نے 15 رکنی سلامتی کونسل کو بتایا کہ دو دنوں میں مقبوضہ فلسطینی سرزمین میں ہماری کارروائیاں رک جائیں گی۔ اس قانون سازی کا مکمل نفاذ تباہ کن ہوگا۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس اور سلامتی کونسل کا کہنا ہے کہ یواین آر ڈبلیو اے غزہ میں انسانی امداد کے عمل میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے، جسے اسرائیل اور فلسطینی عسکریت پسند گروپ حماس کے درمیان 15 ماہ کی جنگ سے شدید نقصان پہنچا ہے۔
یواین آر ڈبلیو اے کا بیان غیر ذمہ دارانہ ہے: امریکہ
اقوام متحدہ میں قائم مقام امریکی سفیر ڈوروتھی شی نے سلامتی کونسل میں بات کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ، نئے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی قیادت میں، یروشلم میں یواین آرڈبلیو اے کے دفاتر کو بند کرنے کے اسرائیل کے حق کی حمایت کرتا ہے۔ ٹرمپ کے پیشرو جو بائیڈن کے دور میں امریکہ نے اسرائیل پر زور دیا تھا کہ وہ اس قانون پر عمل درآمد روک دے۔
شی کا کہنا تھا کہ یو این آر ڈبلیو اے کی جانب سے اسرائیلی قانون کے اثرات کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنا اور یہ کہنا کہ وہ انسانی ہمدردی کے پورے عمل کو روکنے پر مجبور کر دے گا، "غیر ذمہ دارانہ اور خطرناک" ہے۔
قائم مقام امریکی سفیر نے کہا کہ یواین آر ڈبلیو اے غزہ میں انسانی ہمدردی کی امداد فراہم کرنے کا واحد ذریعہ نہیں ہے اور نہ کبھی رہا ہے۔ غزہ اور مغربی کنارے میں دیگر ایجنسیاں جن میں یونیسیف، ورلڈ فوڈ پروگرام، ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن اور یو این ڈیولپمنٹ پروگرام شامل ہیں، کام کرتی ہیں۔
یواین آر ڈبلیو اے کا خلا کون بھرے گا؟
اقوام متحدہ متعدد بار کہہ چکا ہے کہ یواین آر ڈبلیو اے کا کوئی متبادل نہیں ہے اور بصورت دیگر یہ ذمہ داریاں اسرائیل اٹھائے۔ لیکن اسرائیل نے کہا ہے کہ وہ یو این آر ڈبلیو اے کا خلا بھرنے کا ذمہ دار نہیں ہو گا۔
لازرینی نے سلامتی کونسل کو بتایا کہ اکتوبر 2023 کے بعد سے ان کے ادارے نےکل خوراک کی دو تہائی امداد فراہم کی ہے اور دس لاکھ سے زیادہ بے گھر افراد کو پناہ کی سہولت مہیا کی ہے۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ یواین آر ڈبلیو اے روزانہ 17000 فلسطینیوں کو طبی مسائل پر ماہرانہ مشوروں کی سہولت فراہم کرتا ہے۔
اس جنگ کا آغاز 7 اکتوبر 2023 کو اسرائیل پر حماس کے دہشت گرد حملے کی وجہ سے ہوا تھا.جسے امریکہ اور بعض یورپی ممالک نے ایک دہشت گرد تنظیم قرار دیا ہے۔
اسرائیل ایک عرصے سے یواین آر ڈبلیو اے پر یہ کہتے ہوئے تنقید کرتا رہا ہے کہ اس کے عملے کے ارکان نے 7 اکتوبر کو اسرائیل پر حماس کے حملے میں حصہ لیا تھا۔
اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ اس نے یواین آر ڈبلیو اے کے 9 ارکان کو، جن پر حملے میں ملوث ہونے کا الزام تھا، برطرف کر دیا ہے۔ لبنان میں حماس کا ایک کمانڈر بھی، جو اسرائیلی حملے میں مارا گیا تھا، یو این آر ڈبلیو اے میں ملازمت کرتا تھا۔
اقوام متحدہ نے اسرائیل سے یہ بھی کہا ہے انہوں نے تحقیقات کرنے کے لیے اسرائیل سے متعدد بار ثبوت مانگے ہیں جو اس کے کہنے کے مطابق فراہم نہیں کیے گئے۔
اسرائیلی حکام کے مطابق حماس کے حملے میں 1200 کے قریب افراد ہلاک ہوئے تھےاور تقریباً 250 کو یرغمال بنایا گیا تھا۔
اسرائیل کی جوابی کارروائی میں حماس کے زیرِانتظام غزہ کی وزارتِ صحت کے مطابق 47 ہزار سے زیادہ فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں۔
اسرائیل اور فلسطینی عسکری تنظیم حماس کے درمیان 15 ماہ تک جاری رہنے والی جنگ کے باعث غزہ کا زیادہ تر علاقہ ملبے اور کھنڈرات میں بدل چکاہے۔اور اس وقت فریقین کے درمیان جنگ بندی کے بعد نقل مکانی کرنے والے فلسطینی اپنے گھروں کو واپس لوٹ رہے ہیں۔
(اس رپورٹ کے لیے کچھ معلومات رائٹرز سے لی گئیں ہیں)
فورم