|
ویب ڈیسک -- چینی ٹیکنالوجی کمپنی کے مصنوعی ذہانت سے متعلق چیٹ بوٹ 'ڈیپ سیک' نے آرٹیفیشل انٹیلی جینس کے میدان میں چین اور امریکہ کی مسابقت پر ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے۔
'ڈیپ سیک' کی ایپ پیر کو ایپل اسٹور پر سب سے زیادہ ڈاؤن لوڈ کی جانے والی ایپ بن گئی جسے 'چیٹ جی پی ٹی' کے مقابل کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
بعض ماہرین کہتے ہیں کہ 'ڈیپ سیک' کی کم لاگت نے اسے آرٹیفیشل انٹیلی جینس میں کام کرنے والی بڑی امریکی کمپنیوں کے مقابلے میں لا کھڑا کیا ہے۔
مبصرین کہتے ہیں کہ اگر یہ درست ہے تو اس نے امریکی کمپنیوں کی جانب سے اے آئی کی ترقی کے لیے ڈیٹا سینٹرز اور کمپیوٹر چپس کے لیے بھاری سرمایہ مختص کرنے پر بھی سوال اُٹھا دیا ہے۔
لیکن بعض کا خیال ہے کہ 'ڈیپ سیک' کی ٹیکنالوجی پر امریکی اسٹاک مارکیٹ کے گھبراہٹ سے بھرپور ردِ عمل کی بڑی وجہ اس ایپ کی صلاحیت کے بارے میں لاحق بعض غلط فہمیاں بھی ہیں۔
سیمی کنڈکٹرز کی صنعت پر نظر رکھنے والے ماہر اور تجزیہ کار اسٹیسی راسگن کہتے ہیں کہ " ان (ڈیپ سیک) کے بنائے گئے ماڈلز لاجواب ہیں۔ لیکن انہیں معجزہ کہنا بھی درست نہیں ہو گا۔"
اسٹیسی راسگن اُن ماہرین میں شامل ہیں جن کا مؤقف ہے کہ امریکی اسٹاک مارکیٹ کا اس ایپ پر ردِعمل حد سے متجاوز تھا۔
خیال رہے کہ 'ڈیپ سیک' کے اے آئی کی امریکی کمپنیوں کے مدِمقابل آنے کا اسٹاک مارکیٹ پر بھی اثر پڑا ہے اور پیر کو امریکی اسٹاک مارکیٹ میں ٹیکنالوجی کمپنیوں کے شیئرز کی قیمتوں میں زبردست کمی آئی۔
آرٹیفیشل انٹیلی جینس کے شعبے میں استعمال ہونے والی چپ بنانے والی بڑی امریکی کمپنی 'این ویڈیا' کے حصص پیر کو 17 فی صد تک گر گئے۔
اسٹیسی راسگن کہتے ہیں کہ چینی کمپنی نے کوئی ایسی نئی چیز استعمال نہیں کی جس کا پہلے کسی کو پتا نہیں تھا یا وہ خفیہ تھیں۔ ان کے بقول انہوں نے انہی چیزوں سے کام لیا ہے جن کے ساتھ ہر کوئی تجربات کر رہا ہے۔
'ڈیپ سیک' ہے کیا؟
اسٹارٹ اپ 'ڈیپ سیک' کی بنیاد 2023 میں چین کے شہر ہانگزو میں رکھی گئی تھی اور اسی سال کے آخر میں اس نے اپنا پہلا اے آئی لارج لینگویج ماڈل ریلیز کیا تھا۔
'لارج لینگویج ماڈل' سے مراد ایک بڑا ڈیپ لرننگ الگورتھم ہے جو بڑے ڈیٹا سیٹ کا استعمال کرتے ہوئے مواد کو پہچاننے، ترجمہ کرنے اور پیش گوئی کرنے کے قابل بناتا ہے۔
'ڈیپ سیک' کے چیف ایگزیکٹو افسر (سی ای او) لیانگ وین فینگ نے اس سے قبل 2015 میں 'ہائی فلائر' کے نام سے ایک مشترکہ سرمایہ کاری فنڈ کی بنیاد رکھی تھی۔ یہ کمپنی آرٹیفیشل انٹیلی جینس کا استعمال کرتے ہوئے اپنے کلائنٹس کو ٹریڈنگ سے متعلق مشورے دیتی ہے۔
فنڈ نے 2022 تک 'این ویڈیا' کی 10 ہزار ہائی پرفارمنس 'اے 100' چپس جمع کر لی تھیں جو آرٹیفیشل انٹیلی جینس سسٹم بنانے اور چلانے کے لیے استعمال ہوتی ہیں۔ اس کے بعد امریکہ نے چین کو ان چپس کی فروخت پر پابندی لگا دی تھی۔
'ڈیپ سیک' کے مطابق اس کے حالیہ ماڈلز 'این ویڈیا' کی نسبتاً کم کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والی 'ایچ 800' چپس کے ساتھ بنائے گئے ہیں جنہیں چین کو فروخت کرنے پر پابندی نہیں ہے۔ بعض ماہرین کا خیال ہے کہ چین نے اس طرح امریکہ کو یہ پیغام دیا ہے کہ جدید ترین اے آئی سسٹمز کے لیے بہترین ہارڈ ویئرز کی ضرورت نہیں پڑتی۔
گزشتہ ماہ 'ڈیپ سیک' نے ایک ایسا اے آئی ماڈل متعارف کرایا تھا جس کے متعلق اس کا دعویٰ تھا کہ یہ امریکی کمپنی 'اوپن اے آئی' کے 'چیٹ جی پی ٹی' اور اسی نوعیت کے دیگر ماڈلز سے ملتا جلتا ہے اور اس پر زیادہ لاگت بھی نہیں آئی۔ رواں ماہ کے آغاز میں یہ ماڈل ایپ کی صورت میں 'گوگل' اور 'ایپل اسٹور' پر بھی دستیاب تھا۔
لیکن گزشتہ ہفتے 'ڈیپ سیک' کے ماڈل 'آر ون' سے متعلق ایک ریسرچ پیپر شائع ہوا جس میں اس کا 'اوپن اے آئی' کے ـ'o1' ماڈل سے موازنہ کرتے ہوئے اسے بہت کم خرچ لیکن صلاحیت میں تقریباً برابر قرار دیا گیا۔یہ ریسرچ پیپر عین اس دن منظرِ عام پر آیا جب واشنگٹن ڈی سی میں نئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی حلف برداری ہو رہی تھی۔
راسگن کہتے ہیں کہ اس ماڈل کی لاگت سے متعلق دعوے کی حقیقت تو ابھی دنیا کے سامنے نہیں لیکن اس دعوے نے سب کو حیران پریشان ضرور کر دیاہے۔
'اسپوتنک' کا پس منظر
'ڈیپ سیک' کی تکنیکی صلاحیتوں پر گفتگو کے ساتھ ساتھ امریکہ میں اب یہ بحث بھی چل رہی ہے کہ 'اے آئی' میں چین کا مقابلہ کیسے کیا جائے ۔
وینچر کیپٹلسٹ مارک اینڈریسن نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم 'ایکس' پر اپنی پوسٹ میں کہا کہ یہ 1957 والی صورتِ حال ہے جب روس نے اپنا خلائی مشن 'اسپوتنک' خلا میں بھیجا تھا جس کے بعد روس اور امریکہ کے درمیان خلائی تسخیر کی 'سرد جنگ' شروع ہو گئی تھی۔
پیر کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی اس معاملے پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ یہ اچھا ہے کیوں کہ آپ کو [ان چیزوں پر] اتنا پیسہ خرچ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
پیر کو میامی میں ری پبلکن ارکان سے گفتگو کرتے ہوئے صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ یہ ہماری انڈسٹری کے لیے ایک 'ویک اپ کال' ہے اور ہمیں جیتنے کے لیے مقابلے پر توجہ مرکوز کرنا ہو گی۔"
ماہرین کے مطابق ایک اور چیز جو "ڈیپ سیک' کو 'اوپن اے آئی' سے الگ کرتی ہے، وہ اس کا 'اوپن سورس' ماڈل ہے جس کا مطلب ہے کہ اس کے مرکزی فیچرز تک ہر کسی کو رسائی اور ترمیم کی اجازت ہے۔ البتہ کمپنی نے وہ ڈیٹا ظاہر نہیں کیا ہے جو اس نے اپنے ماڈل کو تربیت دینے کے لیے استعمال کیا ہے۔ واضح رہے کہ 'اے آئی' ماڈلز کو انسانوں کی طرح سوچنے، سمجھنے، جواب دینے اور فیصلہ کرنے کے لیے بہت زیادہ مقدار میں ڈیٹا فیڈ کیا جاتا ہے۔
لیکن جس معاملے پر 'ڈیپ سیک' کے 'آر ون' ماڈل کی تعریف کی جا رہی ہے اور جسے خود 'این ویڈیا' نے بھی 'ٹیسٹ ٹائم اسکیلنگ کی بہترین مثال' قرار دیا ہے، وہ اس کے خود سیکھنے کی صلاحیت ہے۔
'ٹیسٹ ٹائم اسکیلنگ' وہ طریقہ ہے جس میں اے آئی ماڈلز ڈیٹا کے نئے ذرائع اور ٹریننگ کے بغیر خود اپنی پرفارمنس سے ہی سیکھتے اور اپنی کارکردگی مزید بہتر بناتے ہیں۔
اس خبر کے لیے مواد خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' سے لیا گیا ہے۔
فورم