|
اسرائیل اور فلسطینی عسکریت پسند تنظیم حماس ہفتے کے روز جنگ بندی معاہدے کے تحت قیدیوں اور یرغمالوں کا تبادلہ کریں گے۔ حماس تین اسرائیلیوں کو رہا کرے گا ، بدلے میں اسرائیلی جیلوں سے 90 قیدیوں کو رہا کیا جائے گا ۔
غزہ میں 15 ماہ تک جاری رہنے والی تباہ کن لڑائی کے بعد جنگ بندی 19 جنوری سے نافذ ہے جس میں مرحلہ وار دونوں اطراف سے اسیروں کا تبادلہ کیا جا رہا ہے۔
اسرائیل اپنی جیلوں سے 90فلسطینی قیدیوں کو رہا کرے گا جب کہ حماس تین اسرائیلی یرغمالوں کو آزاد کرے گا۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق حماس اور اسلامی جہاد کے عسکریت پسند اب تک سینکڑوں فلسطینی قیدیوں کے بدلے 15 یرغمالوں کو انٹرنیشنل کمیٹی آف ریڈ کراس (آئی سی آر سی) کے حوالے کر چکے ہیں، جن میں سے زیادہ تر خواتین اور بچے ہیں۔
اسرائیل کے یرغمالوں کے لیے مہم چلانے والے گروپ "ہوسٹیجز اینڈ مسنگ فیمیلیز فورم" نے ہفتے کے روز رہا کیے جانے والے اسیروں کے ناموں کا اعلان کیا ہے جنہیں حماس نے اکتوبر 2023 کو اسرائیل کے جنوبی علاقوں پر حملے کے دوران اغوا کرلیا تھا اور انہیں اپنے ساتھ غزہ لے گئے تھے۔
رہائی پانے والے یرغمالوں میں یاردن بیباس، کیتھ سیگل، جو کہ امریکی شہریت بھی رکھتے ہیں، اور اوفر کالدیرون، جو فرانسیسی شہریت بھی رکھتے ہیں، شامل ہیں۔
اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کے دفتر نے تصدیق کی کہ اسے رہا کیے جانے والے تین یرغمالوں کے نام موصول ہو گئے ہیں۔
ادھر فلسطینی قیدیوں کے ایڈووکیسی گروپ، "پیلسٹینین پریزنرکلب" نے بھی اسرائیل سے 90 قیدیوں کو ہفتے کے روز ہونے والی رہائی کی تصدیق کی ہے ۔ ان فلسطینی قیدیوں میں سے9عمر قید کی سزا کاٹ رہے ہیں۔
سات اکتوبر 2023 کو اسرائیلی حکام کے مطابق حماس کے دہشت گرد حملے میں تقریباً 1200 لوگ ہلاک ہوئے تھے جبکہ عسکریت پسند اس دن لگ بھگ 250 افراد کو یرغمال بنا کر اپنے ساتھ غزہ لے گئے تھے جس کے بعد ان کا باہر کی دنیا سے رابطہ منقطع ہو گیا۔
اے ایف پی کے مطابق مغویوں میں سے 79 اب بھی غزہ میں موجود ہیں جن میں کم از کم 34 اسرائیلی فوج کے مطابق ہلاک ہو چکے ہیں۔
غزہ میں سات اکتوبر کے بعد اسرائیل کے حملوں میں حماس کے زیر انتظام وزارت صحت کے مطابق اب تک47 ہزار تین سو سے زیادہ فلسطینی ہلاک ہو چکے جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے ہیں۔ غزہ کے شہر بڑی حد تک تباہ ہو چکے ہیں۔ معاہدے کے تحت لاکھوں بے گھر ہونے والے فلسطینی اب اپنے گھروں کو لوٹ رہے ہیں لیکن اقوام متحدہ کے مطابق غزہ کے لوگوں کو اب بھی صحت اور خوراک کے بحران کا سامنا ہے۔
اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ اس نے جنگ کے دوران 17 ہزار عسکریت پسندوں کو ہلاک کیا۔ تاہم اسرائیلی حکام نے اس بارے میں کوئی ثبوت فراہم نہیں کیا۔ امریکہ اور بعض مغربی ملکوں نے حماس کو دہشت گرد تنظیم قرار دیا ہوا ہے۔
دریں اثنا، فلسطینیوں کو انسانی مدد فراہم کرنے والی اقوام متحدہ کی"ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی" (یواین آرڈبلیو اے) نے کہا ہے کہ اس نے اسرائیلی پابندی کے اعلان کے باوجود مقبوضہ فلسطینی علاقوں اور غزہ میں انسانی ہمدردی کے تحت کام جاری رکھا ہوا ہے۔
واضح رہے کہ اسرائیل کی طرف سے امدادی ایجنسی کے مشرقی یروشلم سمیت اسرائیلی کنٹرول کے علاقوں میں کام کرنے پر ایک دن قبل پابندی کا اطلاق ہوا تھا۔
اسرائیل کا الزام ہے کہ اس ایجنسی کے ملازمین نے حماس کے سات اکتوبر 2023 کے اسرائیلی علاقوں پر حملے میں حصہ لیا تھا۔
دوسری طرف برطانیہ، فرانس اور جرمنی نے جمعہ کے روز اسرائیل کے اس نئے قانون پر عمل درآمد پر اپنی تشویش کا اعادہ کیا۔
خبر رساں ادارے "رائٹرز" کے مطابق انسانی ہمدردی کی امداد فراہم کرنے والے اداروں کا کہنا ہے کہ پابندی سے تباہ شدہ غزہ کی پٹی پر پر بہت زیادہ اثر پڑے گا کیونکہ ان کا سامان اسرائیل کے راستے فلسطینی علاقے تک پہنچتا ہے۔
یو این آر ڈبلیو اے کی کمیونیکیشن کی ڈائریکٹر جولیٹ ٹوما نے جنیوا میں ایک پریس بریفنگ میں بتایا کہ "ہم خدمات فراہم کرنا جاری رکھے ہوئے ہیں۔"
انہوں نے کہا کہ غزہ میں ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی بین الاقوامی انسانی ہمدردی کے کام میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ ہمارے پاس غزہ میں بین الاقوامی اہلکار موجود ہیں، اور ہم بنیادی سامان کے ٹرک لاتے رہتے ہیں۔
جولیٹ ٹوما نے کہا کہ غزہ میں امدادی ایجنسی کے کام میں کسی قسم کی رکاوٹ سے جنگ بندی کے معاہدے کو خطرہ لاحق ہو جائے گا۔
(اس خبر میں شامل معلومات اے ایف پی اور رائٹرز سے لی گئی ہیں)
فورم