رسائی کے لنکس

چاہے کوئی ناراض ہو، ٹیکس تو دینا ہوگا: مشیر خزانہ


وزیر اعظم کے مشیر برائے خزانہ ڈاکٹر عبد الحفیظ شیخ کا کہنا ہے کہ معیشت کی بہتری کے لیے ملک کے امیر طبقے کو ٹیکس دینا ہوگا اور ’’بجٹ میں ٹیکس وصولی کے لیے مختص کردہ 5500 ارب روپے کا ہدف مشکل ضرور ہے، لیکن ناممکن نہیں‘‘۔

اسلام آباد میں بجٹ 2019-2020 کے اعلان کے بعد مشیر خزانہ نے وزیرِ مملکت حماد اظہر وزیر مملکت برائے توانائی اور فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے چیئرمین شبر زیدی کے ہمراہ تفصیلی پریس کانفرنس کی۔

ڈاکٹر حفیظ شیخ نے کہا کہ حکومت نے انتہائی مشکل اقتصادی حالات میں بجٹ پیش کیا ہے، کیونکہ قرضوں پر سود کی ادائیگی، عسکری اور دفاعی اخراجات بھی قرضے لے کر پورے کیے جا رہے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ’’پاکستان کے امرا کے مقابلے دوسرے ممالک کا امیر طبقہ زیادہ ٹیکس ادا کرتا ہے اور پاکستان میں ٹیکس دینے کی شرح دنیا بھر میں کم ترین سطح پر ہے جو کسی بھی طرح قابلِ قبول نہیں ہے‘‘۔

مشیر خزانہ نے کہا کہ ’’اگر ’جی ڈی پی‘ میں ٹیکسوں کی شرح بڑھانے کے لیے ہمیں کسی کو ناراض بھی کرنا پڑا تو ہم کریں گے۔‘‘

بجٹ میں نئے ٹیکسوں کے بارے میں ڈاکٹر حفیظ شیخ نے کہا کہ ’’ملک میں برآمدی شعبے پر کوئی اضافی ٹیکس نہیں لگایا گیا۔ لیکن، پرتعیش اشیا کی درآمد پر ٹیکسوں کی شرح بڑھائی گئی ہے‘‘۔

انھوں نے بتایا کہ ’’حکومت ٹیکس گوشوارے جمع کرانے والے ’فائلر‘ اور ’نان فائلر‘ کا فرق ختم کر رہی ہے۔ اب نان فائلرز کو گاڑی اور جائیداد خریدتے ہی فائلر بننا پڑے گا اور اگر کوئی فائلر نہیں بنے گا تو اس کی آمدن کا آڈٹ کیا جائے گا‘‘۔

آئندہ مالی سال میں ٹیکس وصولی کے لیے ایک بڑا ہدف مقرر کرنے کے حوالے سے انھوں نے کہا کہ ’’پاکستانی عوام، خاص طور پر امیر افراد کو ملک کا وفادار ہونا پڑے گا اور ٹیکس دینا ہوگا۔‘‘

مشیر خزانہ نے کہا کہ کب تک پاکستان قرض لے کر اپنے اخراجات پورے کرتا رہے گا، کیونکہ ٹیکس سے حاصل ہونے والی آمدن کا ایک بڑا حصہ قرضوں پر سود کی ادائیگی میں خرچ ہوتا ہے۔

انھوں نے واضح کیا کہ حکومت ٹیکس کا دائرہ کار بڑھانے، اخراجات میں کمی اور دفاعی بجٹ میں اضافہ نہ کر کے مالیاتی خسارہ کم کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

آئندہ مالی سال کے دفاعی بجٹ میں کوئی اضافہ نہیں کیا گیا، اور دفاع کے لیے 1152 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں، جب کہ حکومت نے اخراجات میں بھی 23 ارب روپے کی کٹوتی کی ہے۔

مشیر خزانہ نے کہا کہ ان تمام مشکل حالات کے باوجود صحت، تعلیم، ترقیاتی منصوبوں اور انتہائی غریب طبقے کی مدد کے لیے بجٹ میں رقوم مختص کی گئی ہیں۔

آئندہ مالی سال کے بجٹ میں خیبر پختوانخوا میں ضم ہونے والے قبائلی اضلاع کی تعمیر و ترقی کے لیے 152 ارب روپے اور احساس پروگرام کے لیے 191 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ آئندہ مالی سال کے دوران مائع پیٹرولیم گیس یعنی ایل این جی کے دو پلانٹس کی نیلامی سے 150 ارب روپے ملیں گے۔

ادھر کراچی سے ہمارے نمائندے محمد ثاقب کی رپورٹ کے مطابق، پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کی جانب سے قومی اسمبلی میں پیش کئے گئے پہلے وفاقی بجٹ پر عوام کی طرف سے مختلف آرا سامنے آ رہی ہیں۔ ہر طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد اسے اپنے شعبے کے اعتبار سے دیکھ رہے ہیں اور اظہار خیال کرتے نظر آتے ہیں۔

کاروباری طبقے کی بڑی تعداد تحریک انصاف کی حکومت کی جانب سے پیش کیے گئے بجٹ پر غیر مطئمن دکھائی دیتی ہے۔ تاجر برادری کا مؤقف جاننے کے لئے، وائس آف امریکہ نے ان کے دو اہم رہنماؤں سے بات کی، تاکہ ان کا مؤقف جانا جا سکے۔

کراچی چیمبر آف کامرس کے صدر، جنید ماکڈا نے وفاقی حکومت کے پیش کردہ بجٹ کو ’’مایوس کن‘‘ قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’تاجروں کو حکومت سے ایسے بجٹ کی توقع بالکل نہیں تھی، جس میں ان کے لئے کوئی ریلیف نہ ہو‘‘۔

جنید ماکڈا کے مطابق، ’’تجویز کردہ بجٹ میں حکومت نے تاجروں کو دی گئی تقریباً تمام مراعات واپس لے لی ہیں۔ اگر ملکی معیشت کے لئے یہ مراعات واقعی بہتر نہیں تھیں تو ایک سال کے دوران حکومت کی جانب سے پیش کیئے گئے دو ضمنی بجٹ میں یہ کیوں رکھی گئیں؟‘‘

جنید ماکڈا کا اشارہ حکومت کے اس اقدام کی جانب تھا جس میں حکومت نے ’زیرو ریٹڈ ٹیکس‘ میں شمار کی جانے والی صنعتوں کو ایک بار ٹیکس نیٹ میں لانے کا اعلان کیا تھا، ’’جن میں سب سے اہم ٹیکسٹائل، چمڑے اور کھیلوں کے سامان سے متعلق صنعتیں شامل ہیں‘‘۔ تاجر رہنما کے مطابق، ’’یہ عمل بہتر نہیں‘‘، بلکہ ان کے بقول، ’’یہ تاجروں سے زیادتی کے مترادف ہے‘‘۔

جنید ماکڈا نے کہا ہے کہ ’’ایسی ملکی صنعتوں کو اس وقت سہارا دینے کی ضرورت ہے، کیونکہ ان صنعتوں میں پاکستان کا مقابلہ بھارت، چین اور بنگلہ دیش سے ہے، جن کی حکومتیں ان صنعتوں کو سبسڈی فراہم کرکے ان کی خوب مدد کر رہی ہیں‘‘۔

ان کے مطابق، ان ملکوں کی حکومتوں کی جانب سے دی گئی مراعات کے باعث مارکیٹ میں سستی اشیا فراہم ہوتی ہیں۔

جنید ماکڈا نے کہا ہے کہ اس بجٹ میں تاجروں کے لئے کاروبار کرنے کے لئے اخراجات کم کیے گئے، نہی انہیں کوئی خاطر خواہ سہولیات فراہم کی گئی ہیں جن سے تاجروں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

کراچی تاجر اتحاد کے چئیرمین، عتیق میر نے کہا ہے کہ ’’بجٹ میں غریب طبقے کے لئے کوئی خاص مراعات نظر نہیں آتیں‘‘۔

انھوں نے کہا ہے کہ ’’گاڑیوں پر اضافی ٹیکس کی بات تو سمجھ میں آتی ہے۔ لیکن، اشیائے خورد و نوش کی قیمتوں میں اضافے سے مہنگائی کا طوفان آجائے گا اور اس سے سب سے زیادہ متاثر عام آدمی ہوگا‘‘۔

عتیق میر نے مزید کہا کہ ’’ایسی صورتحال میں یوٹیلیٹی اسٹورز کو خصوصی پیکج دیا جانا چائیے‘‘۔

انھوں نے کہا کہ ’’چھوٹے تاجروں کے لئے بجٹ میں یہ واضح نہیں کیا گیا کہ کیا حکومت ٹیکس وصولی کے لئے براہ راست ٹیکس عائد کرنا چاہتی ہے، یا اس کا دار و مدار بلواسطہ ٹیکسیشن پر ہی ہوگا‘‘۔ عتیق میر کے مطابق، ’’مقامی صنعت کو سہارا دے کر ملک کا تجارتی خسارہ کم کیا جا سکتا تھا۔ لیکن، بجٹ میں ایسی سہولیات نہیں دی گئیں‘‘۔

بیشتر تاجر رہنماؤں کا کہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے طے کئے گئے اہداف بھی ’’غیر حقیقی دکھائی دیتے ہیں‘‘، خاص طور پر معاشی ترقی اور ٹیکس کی وصولیوں کے اہداف پورے کرنا آسان دکھائی نہیں دیتا۔ اور، دیکھنا یہ ہوگا کہ حکومت ان ٹارگٹس کو حاصل کرنے کے لئے کیا حکمت عملی اپناتی ہے‘‘۔

  • 16x9 Image

    سارہ حسن

    سارہ حسن ملٹی میڈیا صحافی ہیں اور ان دنوں وائس آف امریکہ اردو کے لئے اسلام آباد سے ان پٹ ایڈیٹر اور کنٹری کوآرڈینیٹر پاکستان کے طور پر کام کر رہی ہیں۔

XS
SM
MD
LG