رسائی کے لنکس

قرضوں میں اضافے کی تحقیقات کے لیے کمیشن بنانے کا اعلان


وزیرِ اعظم عمران خان نے ایک اعلیٰ سطحی تحقیقاتی کمیشن تشکیل دینے کا اعلان کیا ہے، ’’جو اس بات کا کھوج لگائے گا کہ 10 برس کے اندر ملک پر 24000 ارب روپے کا قرضہ کیسے چڑھا‘‘۔ کمیشن کی سربراہی وہ خود کریں گے۔

انھوں نے کہا ہے کہ اُن کے علاوہ ’’اس کمیشن میں ملک کے تمام تحقیقاتی اداروں، بشمول انٹیلی بیورو ایف بی آئی، آئی ایس آئی، ایف بی آر اور اسٹیٹ بینک کے نمائندے شامل ہوں گے‘‘۔

وزیر اعظم نے کہا کہ ’’یہ انکوائری اس لیے ضروری ہے، تاکہ آئندہ کوئی ملکی سربراہ پاکستان کو اس بے دردی سے لوٹ کر تباہ کرنے کی جسارت نہ کر سکے‘‘۔

وزیر اعظم نے یہ بات منگل اور بدھ کی نصف شب ملکی ذرائع ابلاغ سے نشریہ قومی خطاب میں کہی۔ اس سے قبل، منگل کو تحریک انصاف کی حکومت کی جانب سے 8238 ارب روپے کا سالانہ وفاقی بجٹ پیش کیا گیا۔

قوم سے خطاب میں عمران خان نے کہا کہ ’’سابق حکمران قومی احتساب کے شکنجے میں آچکے ہیں‘‘، اور عہد کیا کہ’’ نہ کسی کو ’این آر او‘ دیا جائے گا، نہی وہ کسی طور پر عدالتی نظام سے بچ سکیں گے‘‘۔

انھوں نے کہا کہ’’آج قانون کی بالا دستی ہے، عدالتیں اور نیب آزاد ہے اور بڑے بُرج نہ صرف گرے ہیں بلکہ سلاخوں کے پیچھے جا چکے ہیں‘‘۔

عمران خان نے الزام لگایا کہ ’’10 برسوں کے دوران نواز شریف اور آصف زرداری کی حکومتوں کے دوران اربوں ڈالر مالیت کی رقوم ’حوالہ‘ اور ’ہُنڈی‘ کے ذریعے پہلے ملک سے لوٹے ہوئے پیسے باہر لے گئے، اور پھر فرضی اور بے نامی افراد کے نام پر ان میں سے کچھ پیسے اِن اوچھے ہتھکنڈوں کے ذریعے ملک لائے گئے۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادتیں یکایک امیر سے امیرترین ہوتی چلی گئیں، جبکہ ملک بیشمار قرضے تلے دبتا چلا گیا‘‘۔

انھوں نے کہا کہ ’’ماضی کے ان حکمرانوں کے مفادات ملک سے باہر بھیجے گئے پیسے کو محفوظ بنانے اور پاکستان میں من مانی کرنے پر مرکوز رہے‘‘؛ لیکن، انھوں نے کہا کہ ’’اب ایسا نہیں ہوگا‘‘۔

بقول ان کے، ’’ان لوگوں کی دولت باہر ہے۔ انہیں کوئی فکر نہیں۔ ان کے بچے باہر ہیں۔ ان کی عیدیں باہر ہوتی ہیں۔ ان کا علاج باہر ہوتا ہے۔ دراصل، ان کے مفادات پاکستان سے وابستہ نہیں رہے۔ نواز شریف کے وزیر خزانہ ملک سے بھاگے ہوئے ہیں، ان کے دونوں بیٹے برطانیہ میں ہیں، اِسی طرح اُن کے کئی رشتے دار بیرون ملک ہیں‘‘۔

انھوں نے کہا کہ ’’ایسے میں احتساب کا نام لیتے ہی، یہ لوگ ملکی معیشت کو عدم استحکام کا شکار بنانے کے لیے سڑکوں پر آنے کی دھمکیاں دیتے ہیں۔ یہ جتنا چاہیں شور مچا لیں۔ میری جان چلی جائے۔ لیکن، میں کسی صورت ان چوروں کو نہیں چھوڑوں گا‘‘۔

انھوں نے کہا کہ ’’ملک کو دو ’آین آر اوز‘ نے بے انتہا نقصان پہنچایا۔ سنہ 2000ءمیں مشرف نے نواز شریف کو این آر او دے کر سعودی عرب جانے دیا؛ اور پھر 2008ء میں ایک بار پھر میثاق جمہوریت کے نام پر این آر او دیا گیا، جس سے منی لانڈرنگ کا سلسلہ جاری رہا‘‘۔

وزیر اعظم نے کہا کہ 10 سال میں ملکی قرضہ جات 6000 ارب روپے سے بڑھ کر 30000 ارب روپے ہوگئے۔ یہ ’چارٹر آف ڈیموکریسی‘ نہیں بلکہ ’چارٹر آف کرپشن‘ تھا، جو زرداری اور نواز شریف حکومتوں کے دوران حوالہ اور ہنڈی کے ذریعے لندن ہو یا ابوظہبی، جعلی اکاؤنٹس کی صورت میں چلتا رہا‘‘۔

وزیر اعظم نے کہا کہ ’’مشرف کے بعد دس سال کے اندر ملکی قرضہ 41 ارب ڈالر سے بڑھ کر 97 ارب ڈالر تک پہنچ گیا‘‘۔

انھوں نے کہا کہ جب 2018ء میں مسلم لیگ ن کی حکومت گئی تو ملک پر ساڑھے 19 ارب ڈالر کا ’کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ‘ تھا، جس کے باعث ’’ملک دیوالیہ پن کے قریب پہنچ چکا تھا‘‘۔

عمران خان نے متحدہ عرب امارات، سعودی عرب اور چین کی حکومتوں کا شکریہ ادا کیا، ’’جن کی مدد سے ملک ڈفالٹ سے بچ گیا‘‘؛ دوسری جانب، ’’یہ لوگ ملک کو مقروض کرنے پر شرمساری کے بجائے منتخب حکومت کے خلاف ہنگامہ آرائی کی بات کرتے ہیں؟‘‘

انھوں نے کہا کہ سابق حکومت کے وزیر داخلہ نے الزام لگایا تھا کہ ماڈل ’’ایان علی پانچ لاکھ ڈالر کی رقم بیرون ملک لے جاتے ہوئے ایئر پورٹ پر پکڑی گئی تھیں؛ اور وہ اس سے قبل متعدد بار ملک سے باہر آ جا چکی تھیں‘‘، اور یہ کہ ’’ان کا اور بلاول بھٹو زرداری کا مشترکہ بینک اکاؤنٹ ہے‘‘۔

انھوں نے ملک کی افواج کی جانب سے دفاعی بجٹ میں اضافہ قبول نہ کرنے کی درخواست کو سراہا، اور ساتھ ہی کہا کہ تحریک انصاف کی حکومت نے کابینہ اپنی کی مراعات میں کمی کرنے اور 17 گریڈ سے اوپر کی تنخواہیں منجمد کرنےکا اعلان کیا گیا ہے، جب کہ بجٹ میں نچلے طبقے کی تنخواہوں میں اضافہ تجویز کیا گیا ہے۔

وزیر اعظم نے ’بے نامی اکاؤنٹ ہولڈرز‘ سے کہا کہ 30 جون تک دی گئی ’ایمنسٹی اسکیم‘ سے ’’فائدہ اٹھا کر کالے دھن کو سفید کریں، جس کے بعد تمام بے نامی اثاثے ضبط کر لیے جائیں گے‘‘۔

انھوں نے لوگوں سے اپیل کی کہ ’’خوددار قوم بننے میں منتخب حکومت کا ساتھ دیں، اور مل کر ملک کو مشکل معاشی حالات سے باہر نکالنے میں مدد دی جائے، جس کے بعد ملک میں سرمایہ کاری آئے گی، اور ملک خوشحال ہوگا، اور انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے، ملک کو ریاست مدینہ کے ماڈل پر چلایا جائے گا‘‘۔

XS
SM
MD
LG