پاکستان کی حکومت نے مالی سال 2019-2020 کے لیے 31 کھرب 37 ارب کے خسارے کا بجٹ پیش کر دیا ہے۔
پاکستان کے وزیر مملکت برائے ریونیو حماد اظہر نے منگل کو آئندہ مالی سال کا بجٹ پارلیمان کے ایوان زیریں یعنی قومی اسمبلی میں پیش کیا۔ انھوں نے بتایا کہ ملک کے بجٹ کا مجموعی حجم 70 کھرب سے زیادہ ہے جو گزشتہ مالی سال کے مقابلے میں 30 فیصد زیادہ ہے۔
یکم جولائی سے شروع ہونے والے مالی سال کے دوران ٹیکس وصولیوں کا ہدف 55 کھرب روپے رکھا گیا ہے جو کہ جی ڈی پی کا 12.6 فیصد ہو گا۔
حکومت نے مجموعی اخراجات کا تخمینہ 6192 ارب روپے لگایا ہے۔
آئندہ مالی سال میں وفاق کے ترقیاتی پروگرام کے لیے 701 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔
اس دوران قرضوں پر شرح سود کی ادائیگی کے لیے 2891 ارب مختص کیے گئے ہیں جب کہ دفاعی اخراجات کا بجٹ بغیر کسی اضافے کے بدستور 1152 ارب روپے ہے۔
تنخواہوں اور پنشز کی ادائیگی کے لیے 79 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔
حکومت کا کہنا ہے کہ اس دوران بجٹ کا مجموعی خسارہ 3560 ارب روپے ہے۔ لیکن صوبوں کے لیے سرپلس آمدن کا تخمینہ 423 ارب روپے لگایا گیا ہے، جس کے بعد آئندہ مالی سال کے دوران مجموعی مالیاتی خسارہ 31 کھرب 37 ارب روپے ہو گا۔
حکومت کا کہنا ہے کہ آئندہ سال کے دوران نجکاری سے 150 ارب روپے حاصل کیے جائیں گے جب کہ بینکوں سے 339 ارب روپے کا قرضہ لیا جائے گا۔
حکومت کا کہنا ہے کہ آئندہ سال کفایت شعاری کی پالیسی کے تحت 23 ارب روپے بچائے جائیں گے۔
وزیر اعظم کے سکل ڈیولپمنٹ پروگرام کے لیے پانچ ارب روپے، سکیورٹی بہتر بنانے کے لیے 53 ارب روپے اور اندرون ملک نقل مکانی کرنے والے خاندانوں کی فلاح و بہبود کے لیے 17 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔
صوبوں کو ملنے والی رقوم
این ایف سی ایوارڈ کے تحت صوبوں میں 3255 ارب روپے تقسیم کیے جائیں گے، جو پچھلے سال کی نسبت 32 فیصد زیادہ ہیں، جب کہ وفاق کو 3462 ارب روپے ملیں گے۔ 2019 -20 میں وفاق کو ملنے والی رقم گزشتہ سال کے مقابلے میں 13 فیصد زیادہ ہے۔
مراعات اور تنخواہوں میں اضافہ
حکومت نے آئندہ مالی سال کے دوران کم سے کم اجرت 17500 روپے ماہانہ کر دی ہے۔
گریڈ 1 سے 16 تک کے ملازمین کے لیے تنخواہوں میں 10 فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔
سرکاری ملازمین کی پینشن میں 10 فیصد اضافہ ہو گا۔
وفاقی وزرا کی تنخواہوں میں 10 فیصد کمی کی گئی ہے جب کہ وزرا کے ساتھ کام کرنے والے سیکرٹری کی خصوصی تنخواہوں میں 25 فیصد اضافہ کرنے کی تجویز ہے۔
17 سے 20 گریڈ کے سرکاری ملازمین کو 5 فیصد ایڈہاک الاؤنس دیا گیا ہے۔
گریڈ 21 سے گریڈ 22 کے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں کوئی اضافہ نہیں ہوا ہے۔
چینی سگریٹ، سیمنٹ مہنگا، موبائل فون سستے
قبائلی اضلاع میں اقتصادی اور صنعتی ترقی کو فروغ دینے کے لیے مشینری اور پلانٹس کی درآمد پر کوئی ٹیکس نہیں ہو گا۔
موبائل فونز کی درآمد پر عائد تین فیصد ویلیو ایڈیشن ٹیکس کو ختم کر دیا گیا ہے۔
چینی پر عائد سیلز ٹیکس 8 فیصد سے بڑھا کر 17 فیصد کرنے کی تجویز دی گئی ہے جس سے بجٹ تقریر کے مطابق مارکیٹ میں چینی کی قیمت میں 3 روپے 65 پیسے کا اضافہ ہو گا۔
حکومت نے سگریٹ پر اضافی ٹیکس عائد کرنے کی تجویز دی ہے جس سے حکومت کو اضافی 147 ارب روپے ملیں گے۔
حکومت نے تجویز دی ہے کہ کوکنگ آئل پر فیڈرل ایکسائیز ڈیوٹی کو 17 فیصد کر دیا جائے۔
سمینٹ کی فی بوری فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کو ڈیڑھ روپے سے بڑھا کر 2 روپے کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔
بجٹ تجویز میں کہا گیا ہے کہ آئندہ مالی سال میں 50 لاکھ سے زائد کی پراپرٹی خریدنے کے فائلر ہونے کی شرط ختم کی جائے گی۔
حکومت کا کہنا ہے کہ گزشتہ حکومت نے تنخواہ دار طبقے کو جو ٹیکس ریلف دیا تھا اُس سے حکومتی آمدن میں 80 ارب روپے کا نقصان ہوا ہے۔
سال 2018-19 کے دوران حکومت نے 12 لاکھ روپے کی سالانہ آمدن والے افراد کو انکم ٹیکس سے مستثنیٰ قرار دیا تھا۔ وزیر مملکت حماد اظہر کا کہنا ہے کہ تنخواہ دار طبقے کی قابل ٹیکس آمدن کی کم سے کم حد 6 لاکھ روپے رکھنے کی تجویز دی ہے۔
6 لاکھ سے زائد آمدن والے تنخواہ دار طبقے کے لیے 5 فیصد سے 35 فیصد تک ٹیکس عائد کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔
اپوزیشن کا شور شرابا
بجٹ اجلاس کے دوران شروع میں حزب اختلاف کے ارکان خاموشی سے اپنی نشتوں پر بیٹھے پلے کارڈ لہراتے رہے۔ جب نئے ٹیکسوں کا اعلان شروع ہوا تو انہوں نے شور شرابا کرتے ہوئے بجٹ کی کاپیاں پھاڑ کر پھینک دیں۔
حزب اختلاف کے اراکین نے حکومت مخالف نعرے لگائے اور ڈائس کو گھیرے میں لینے کی کوشش کی۔ تاہم، وزیر مملکت برائے مالیات نے اپنی تقریر جاری رکھی۔
ایک موقع پر اپوزیشن اور حکومتی ارکان نے ایک دوسرے کے خلاف دھکم پیل بھی کی۔
بجٹ تقریر ختم ہوتے ہی اسمبلی کا اجلاس ملتوی کر دیا گیا۔