پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان کے مشیر برائے خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ کا کہنا ہے کہ ملک کے قرضوں میں بے پناہ اضافہ، اُن پر سود کی ادائیگی اور ٹیکسوں کی آمدن میں کمی وہ مسائل ہیں جن سے معیشت کو خطرات لاحق ہیں۔ انھوں نے کہا کہ حکومت کی پہلی ترجیح معیشت کو استحکام دینا ہے اور پھر اقتصادی شرحِ نمو بڑھانا ہے۔
اسلام آباد میں مشیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے مالی سال 19-2018 کے دوران معیشت کی جائزہ رپورٹ پیش کی۔
معمول کے برعکس اس پریس کانفرنس میں مشیر خزانہ نے اقتصادی اعداد و شمار اور اہداف کا ذکر نہیں کیا بلکہ انھوں نے معیشت کو درپیش چیلنجز کو بیان کیا۔
مشیر خزانہ نے کہا کہ ملک کے مجموعی قرضے 31 ہزار ارب روپے ہیں جن پر حکومت کو تین ہزار ارب روپے سود ادا کرنا ہے۔
انھوں نے کہا کہ پاکستان کی مجموعی آمدن 5500 ارب روپے ہے جن میں سے صوبوں کو اُن کا حصہ دینے کے بعد وفاق کے پاس محض تین ہزار ارب روپے بچتے ہیں جن سے ملک نہیں چلایا جا سکتا۔
مشیر خزانہ نے کہا کہ بیرونی قرضے لیے گئے لیکن غیر ملکی زرمبادلہ یا ڈالر کمانے کیلئے کوئی اقدامات نہیں کیے گئے ہیں بلکہ گزشتہ دو برسوں میں اسٹیٹ بینک کے زرمبادلہ کے ذخائر 18 ارب ڈالر سے کم ہو کر 9 ارب تک پہنچ گئے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ملک کے بنیادی مسائل پر توجہ نہ دینے سے پاکستان کو ہر کچھ سال کے بعد آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑتا ہے۔
مشیر خزانہ کا کہنا تھا کہ کرنٹ اکاؤنٹ اور تجارتی عدم توازن کے سبب ہونے والے خسارے کی وجہ سے معیشت عدم استحکام کا شکار ہے کیونکہ جب تک برآمدات میں اضافہ نہیں ہو گا حکومت کے مالی حالات بہتر نہیں ہو سکتے۔
حفیظ شیخ نے بتایا کہ تحریک انصاف کے حکومت سنھبالنے کے بعد دوست ممالک سے لیے گئے 9 ارب ڈالر کی رقم سے ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر کو استحکام ملا اور پھر حکومت نے آئی ایم ایف سے بیل آؤٹ پیکج کیلئے رجوع کیا۔
انھوں نے واضح کیا کہ معیشت میں استحکام کیلئے اداروں کو مضبوط کرنا ہو گا کیونکہ پی آئی اے، اسٹیل مل، بجلی اور گیس کی ترسیل کی کمپنیوں کا مجموعی نقصان 1300 ارب روپے ہے اور اگر خسارے کے یہ حالات رہے تو کیسے حکومت عوام کی تعلیم اور صحت پر رقم خرچ کرے گی۔
حکومتی ترجیحات کیا ہیں؟
مشیر خزانہ نے بتایا کہ اُن کی حکومت کی اولین ترجیح معیشت میں استحکام لانا ہے اور اداروں کو مضبوط بنانا ہے۔
انھوں نے کہا کہ حکومت چاہتی ہے کہ بیرونی ممالک سے تعلقات بہتر کر کے سرمایہ کاروں کو پاکستان میں سرمایہ لانے کی ترغیب دی جائے تاکہ ملک میں صنعتیں لگیں۔
حفیظ شیخ کا کہنا تھا کہ ملک کے غریب ترین عوام کو مراعات دینا اور امیر افراد پر ٹیکس عائد کرنا حکومت کی ترجیحات میں شامل ہے۔
مشیر خزانہ نے کہا کہ حکومت ہر سطح پر کفایت شعاری کی روش اپنائے گی۔
کوئی بھی اقتصادی ہدف حاصل نہیں ہوا؟
مالی سال -19 2018 کے دوران پاکستان کی اقتصادی ترقی کی شرح 3.3 فیصد رہی۔ صنعتی پیداوار، خدمات، زراعت اور تعمیرات سمیت تمام شعبوں کے مقرر کردہ ترقی کے اہداف حاصل نہیں ہوئے ہیں۔
اس دوران بڑی صنعتوں اور پیداواری شعبے میں ترقی ہونے کے بجائے منفی دو فیصد کی شرح سے کمی آئی ہے۔