اقتصادی امور کے ماہر ڈاکٹر شاہد حسن نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ سال 2019-20 کیلئے پیش کی گیا بجٹ پاکستان تحریک انصاف کے منشور سے مکمل انحراف کے مترادف ہے۔
انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی نے عدل و انصاف پر مبنی ٹیکس پالیسی کا وعدہ کیا تھا مگر اس بجٹ میں طاقتور طبقے کو نوازا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر پی ٹی آئی حکومت اپنے وعدوں کے مطابق عدل و انصاف پر مبنی ٹیکس پالیسی نافذ کرتی تو اسے 8000 ارب روپے سے زائد کی ٹیکس وصولی ہو پاتی۔
ڈاکٹر شاہد حسن کا کہنا تھا کہ بجٹ میں کل آمدن 5550 ارب روپے بتائی گئی ہے جب کہ 1150 ارب روپے دفاع کے لیے، 2900 ارب روپے قرضوں پر سود کی ادائیگی کے لیے اور 3200 ارب روپے این ایف سی ایوارڈ کے تحت صوبوں کو دیے جائیں گے۔ یوں ان تین مدوں میں ہی اخراجات آمدنی سے کہیں زیادہ ہو جاتے ہیں۔ نتیجتاً بڑے پیمانے پر خسارہ ہو گا اور نوٹ چھاپے جائیں گے۔ اس کے نتیجے میں حکومت قومی اثاثے نجکاری کے نام پر بیچنے پر مجبور ہو جائے گی۔
انہوں نے مزید کہا کہ صوبوں سے کہا جا رہا ہے کہ وہ انہیں ملنے والی رقوم میں سے 423 ارب خرچ نہ کریں اور انہیں سرپلس دکھائیں تاکہ خسارے کو کم کیا جا سکے اور اگر صوبے اس ہدایت پر عمل کرتے ہیں تو انہیں تعلیم، صحت اور ترقیاتی اخراجات کم کرنا پڑیں گے جس سے ملک میں غربت اور بے روزگاری میں اضافہ ہو گا۔
ڈاکٹر شاہد حسن نے ایمسٹی سکیم پر بھی شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ لوٹی ہوئی دولت سے بیرون ملک جائیدادیں بنانے والوں پر معمولی ٹیکس عائد کر کے انہیں اپنے کالے دھن کو سفید کرنے کی سہولت فراہم کر دی گئی ہے جب کہ جو لوگ ایمانداری سے ٹیکس ادا کرتے ہیں انہیں کوئی رعایت نہیں دی گئی۔
معروف ماہر اقتصادیات ڈاکٹر زبیر اقبال نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر شاہد حسن سے اختلاف کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ عمران خان حکومت کی طرف سے اعلان کردہ بجٹ میں جن ترجیحات کی نشاندہی کی گئی ہے وہ غلط نہیں ہیں۔
تاہم ان کا کہنا تھا کہ کسی بجٹ کے ذریعے ملک کی تقدیر نہیں بدلی جا سکتی اور یہ حکومت کی مجموعی اقتصادی پالیسی کا محض ایک حصہ ہوتا ہے۔ لیکن بجٹ میں کیے جانے والے اقدامات اقتصادی پالیسی کو درست سمت میں لے جانے کے سلسلے میں بے حد اہمیت رکھتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ بجٹ کی سب سے اہم ترجیح سرکاری اخراجات میں کمی کے لیے اقدامات کرنا ہے کیونکہ سرکاری اخراجات میں کمی کے اثرات نجی شعبے پر بھی پڑتے ہیں اور یوں اس کے نتیجے میں بچت اور آمدن میں اضافہ ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں روایتی طور پر اخراجات غیر معمولی طور پر بڑھے ہوتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ماضی میں بھی اکثر خسارے کے بجٹ پیش کیے جاتے رہے ہیں۔ اب اخراجات میں کمی سے ایک دو برس تک مشکلات ہوں گی۔ ترقی کی رفتار بھی کم ہو جائے گی۔ چیزوں کی قیمتوں میں اضافہ ہو گا اور ممکنہ طور پر بے روزگاری میں بھی اضافہ ہو گا۔ تاہم یہ اقدامات انتہائی ضروری تھے۔
35 برس تک بین الاقوامی مالیاتی ایجنسی یعنی آئی ایم ایف میں خدمات انجام دینے والے ڈاکٹر زبیر اقبال نے کہا کہ بجٹ اقدامات سے یہ واضح نہیں ہوتا کہ کیا حکومت اخراجات میں کمی سے صرف تصرف میں کمی کا ارادہ رکھتی ہے یا وہ سرمایہ کاری میں اضافے پر بھی توجہ دے گی۔
ڈاکٹر زبیر اقبال نے واضح کیا کہ مالی وسائل کا بہاؤ ان ممالک کی طرف ہو جاتا ہے جن کی اقتصادی پالیسیاں دیگر ممالک کے مقابلے میں بہتر ہوتی ہیں۔ لہذا آئی ایم ایف سے رجوع کرنے کا مقصد بھی یہی تھا کہ پاکستان کی اقتصادی پالیسیاں سرمایہ کاری کرنے والے ملکوں کے لیے پہلے کی نسبت زیادہ پرکشش ہوں اور بجٹ میں اس سلسلے میں ترجیحات کا تعین کر دیا گیا ہے۔
تاہم ڈاکٹر زبیر اقبال کا کہنا تھا کہ حکومت نے اپنی ترجیحات واضح کر دی ہیں اور اب یہ نجی شعبے پر منحصر ہے کہ وہ اپنی ترجیحات کس انداز میں طے کرتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بجٹ کا اعلان ہو چکا ہے۔ تاہم سوال یہ ہے کہ اس میں شامل کی جانے والی ترجیحات پر کس حد تک عمل درآمد ہوتا ہے۔
ایک اور ممتاز ماہر معاشیات اور ورلڈ بینک کے سابق اعلیٰ اہل کار شاہد جاوید برکی نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کے نزدیک اس بجٹ کی سب سے نمایاں بات یہ ہے کہ پاکستان کی مسلح افواج نے ملک کی سکیورٹی کو داؤ پر لگائے بغیر رضاکارانہ طور پر اپنے اخراجات میں کمی کا عندیہ دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کو درپیش سیکورٹی خدشات کے باوجود مسلح افواج کی یہ پیشکش قابل تحسین ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں بہت عرصے کے بعد سوشل سیکٹر پر توجہ دی گئی ہے جو اس سے پہلے نظر انداز ہوتا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اختیارات کو مقامی سطح پر لانے کے اقدامات کیے جا رہے ہیں تاکہ لوگ مقامی سطح پر اپنے مسائل خود حل کر پائیں اور خود اپنی ترجیحات کے مطابق مالی وسائل خرچ کر سکیں۔