رسائی کے لنکس

کرونا وائرس: لاک ڈاؤن کی صورت حال میں خصوصی معاشی پیکج کا اعلان


پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے خصوصی پیکج کا اعلان کیا ہے (فائل فوٹو)
پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے خصوصی پیکج کا اعلان کیا ہے (فائل فوٹو)

پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان نے کرونا کی صورت حال کے باعث خصوصی معاشی پیکج کا اعلان کیا ہے۔ جس کے تحت پیٹرولیم مصنوعات پر 15 روپے فی لیٹر کمی کا اعلان کیا گیا ہے۔ وزیر اعظم کے اعلان کے بعد اسٹیٹ بینک نے بھی شرح سو میں کمی کر دی ہے۔

وزیراعظم عمران خان نے ریلیف پیکچ کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ 300 یونٹ بجلی استعمال کرنے والے صارفین سے تین ماہ کی اقساط میں بل وصول کیا جائے گا۔ مزدور طبقے کے لیے 200 ارب روپے کے فنڈز رکھے گئے ہیں۔

مختلف ٹی وی اینکرز کے سوالات کے جواب دیتے ہوئے عمران خان کا مزید کہنا تھا کہ اسمال اور میڈیم انڈسٹری کے لیے 100 ارب روپے کے فنڈز رکھے گئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ مزدوروں کے لیے فوری طور پر 200 ارب روپے جاری کیے گئے ہیں۔ صنعتوں کو فوری ٹیکس ریفنڈ جاری کرنے کے لیے 100 ارب روپے دیے جائیں گے۔ دالوں سمیت ضروری اشیا پر ٹیکس میں کمی لارہے ہیں۔

پیکج کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ غریب طبقے کو ریلیف دینے کے لیے 150 ارب روپے چار مہینے کے لیے رکھے گئے ہیں۔ غریبوں کو تین ہزار روپے ماہانہ ادا کیے جائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ پناہ گاہوں میں اضافہ کریں گے۔ یوٹیلٹی اسٹور کے لیے 50 ارب روپے مزید مختص کیے جائیں گے۔ گندم کی خریداری کے لیے 280 ارب روپے رکھے گئے ہیں تاکہ کسانوں کے ہاتھ میں پیسہ آئے اور کم سے کم دیہی علاقوں میں حالات قابو میں رہیں۔

'کرفیو لگانے کے متحمل نہیں ہو سکتے'

وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ ہم ملک بھر میں کرفیو لگانے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ ہمیں کرونا وائرس سے نہیں اس کے خوف اور غلط فیصلوں سے زیادہ نقصان ہوسکتا۔

ان کے بقول کرفیو لگانے سے ملک پر بہت برے اثرات مرتب ہوں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ اٹلی، چین جیسے معاشی حالات ہوں تو کرفیو لگانا آسان اقدام ہے۔ پاکستان کے فیصلے ایک چھوٹی سے ایلیٹ کلاس کو دیکھ کر کیے جاتے ہیں۔ کرونا وائرس کے پیش نظر بھی لاک ڈاؤن کو لے کر عمومی سوچ یہی ہے۔

عمران خان نے کہا کہ مکمل کرفیو لگانے سے نقصان امیر کو نہیں بلکہ کچی بستیوں میں رہنے والے غریبوں کو ہوگا۔ اس لیے کرفیو لاک ڈاؤن کی آخری اسٹیج ہے۔

وزیراعظم نے بتایا کہ نیشنل سیکیورٹی کونسل کے اجلاس کے وقت ملک میں کرونا وائرس کے صرف 21 کیسز تھے۔ لاک ڈاؤن تو اسی دن سے شروع ہے۔ اسکولز، کالجز بند کر دیے گئے جب کہ لوگوں کے غیر ضروری اجتماع پر پابندی لگا دی گئی۔

عمران خان کا کہنا تھا کہ مکمل لاک ڈاون کرنے سے غریبوں کو کھانا کون فراہم کرے گا۔ پوری حکومتی ٹیم حالات کا جائزہ لے رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ کرفیو آخری مرحلہ ہے۔ اس سے متعلق سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنا پڑے گا۔جہاں کوورنا پھیلنے کا خدشہ ہے ہم اس علاقے کو سیل کریں گے۔ وفاق سمیت تمام صوبوں کو دو ہفتو ں بعد پالیسی پر نظر ثانی کرنا پڑے گی۔

میڈیا ورکرز کے لیے بھی پیکج کی تیاری

ایک سوال کے جواب میں وزیراعظم نے کہا کہ وزارت اطلاعات کو ہدایت جاری کی ہے کہ میڈیا ورکرز کے لیے بھی پیکج تیار کیا جائے۔

عمران خان نے کہا کہ میں اگر اٹلی یا فرانس میں ہوتا تو کرفیو لگا دیتا۔ ٹرانسپورٹ بند کرنے سے ترسیل کا مسئلہ آتا ہے۔ ہمیں کل پتہ چلا کہ کراچی میں پورٹ بند ہونے سے دالیں وہیں رک گئیں۔

انہوں نے خیال ظاہر کیا کہ ہم سب کو ایک ہفتے بعد اس کا جائزہ لینا ہے۔ اگر ہمیں کرفیو بھی لگانا پڑے تو اس کی بھی تیاری کرنا پڑے گی۔ یہ ٹوئنٹی ٹوئنٹی میچ نہیں ہے۔ یہ معاملہ آئندہ چھ ماہ تک چلے گا۔

وزیراعظم کی اس پریس کانفرنس میں ٹی وی اینکرز نے سخت سوالات بھی کیے اور پہلی مرتبہ وزیر اعظم سے یہ تک سوال کیا گیا کہ آپ لاک ڈاؤن سے انکار کرتے ہیں اور ڈی جی آئی ایس پی آر لاک ڈاؤن کا اعلان کرتے ہیں۔ حکومت کر کون رہا ہے؟

'تمام فیصلوں کا ذمہ دار اور جواب دہ میں ہوں'

صحافیوں نے وزیراعظم سے اسٹیٹ بینک کے عائد کردہ شرح سود کے حوالے سے بھی سخت سوالات کیے۔ مختلف سوالوں کے جواب میں وزیر اعظم نے کہا کہ تمام فیصلوں کا ذمہ دار اور جوابدہ میں ہوں۔

گفتگو کے دوران جنگ اور جیو گروپ کے مالک میر شکیل الرحمٰن کے حوالے سے سوال کیا گیا تو وزیر اعظم نے کہا کہ آج صرف کرونا وائرس کے حوالے سے بات کریں۔ پاکستان میں میڈیا کو جو آزادی حاصل ہے دنیا میں کہیں ایسی آزادہ حاصل نہیں ہے۔ میڈیا کی آزادی پر یقین رکھتے ہیں۔ لیکن اگر آج کرونا وائرس کے علاوہ کوئی بات کرنی ہے تو پریس کانفرنس ختم کر دیتے ہیں۔

وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ ہماری معیشت درست سمت میں جا رہی تھی لیکن کرونا کی وجہ سے ہمیں مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

برآمدات کا شعبہ بہت بری طرح متاثر

ان کے بقول اس وقت برآمدات کا شعبہ بہت بری طرح متاثر ہو رہا ہے۔ آئندہ کچھ دنوں میں تعمیراتی صنعت کے شعبے کے لیے پیکج لایا جائے گا جس سے ملازمتوں کے موقع پیدا ہوں گے۔

بریفنگ میں وائرس کے پھیلاؤ سے متعلق وزیراعظم نے کہا کہ چین سے کوئی بھی مریض پاکستان نہیں آیا لیکن ایران سے آنے والے زائرین کے حوالے سے ہم تہران سے رابطہ میں تھے لیکن شاید وہ اپنی پابندیوں کی وجہ سے انتظامات نہیں کرسکے۔

وزیر اعظم عمران خان پر حالیہ دنوں میں لاک ڈاؤن نہ کرنے کے اعلان کے حوالے سے شدید تنقید کی جا رہی ہے۔ وزیر اعظم پر اس معاملے میں سیاست کرنے کا الزام لگایا جا رہا ہے۔تحریک انصاف کی حکومت پر انتظامات کے حوالے سے بھی تنقید کی جا رہی ہے کہ ملک بھر میں اسپتالوں میں صورت حال کی سنگینی کے مطابق انتظامات نہیں ہیں جب کہ ڈاکٹرز و پیرا میڈیکل اسٹاف بھی اس وقت کرونا کی وجہ سے سنگین خطرے سے دوچار ہے۔

شرح سود میں کمی

پاکستان کی حکومت کی جانب سے پیکج کے اعلان کے بعد اسٹیٹ بینک نے شرح سود ڈیڑھ فی صد کم کرنے کا اعلان کیا ہے۔

اسٹیٹ بینک کے اعلان کے بعد شرح سود 11 فی صد ہو گئی ہے۔

پاکستان میں مختلف حلقے شرح سود میں کمی کے مطالبات کر رہے تھے۔

قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف نے بھی حکومت سے شرح سود دو سے تین فی صد کم کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔

کراچی سے وائس آف امریکہ کے نمائندے محمد ثاقب کے مطابق حکومت پاکستان نے دو ہفتوں کے دوران شرح سود مجموعی طور پر 2.25 فیصد کم کیا ہے۔ اس اعلان کے بعد ملک میں میں نئی شرح سود 11% ہوگی۔

واضح رہے کہ اس سے قبل 17 مارچ کو مانیٹری پالیسی کمیٹی نے 0.75 فی صد کمی کا اعلان کیا تھا۔

اس بات کا اعلان مانیٹری پالیسی کمیٹی کے ایمرجنسی اجلاس کے بعد کیا گیا۔

اجلاس کے بعد جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ مانیٹری پالیسی کمیٹی نے کرونا وائرس کی وبا کے پھیلاؤ کے پاکستانی معیشت پر اثرات کا جائزہ لیا اور اس کی روشنی میں وہ اقدامات اٹھانے کا فیصلہ کیا گیا جس سے معیشت کو استحکام مل سکے۔

ادھر معاشی تجزیہ کار حکومت کی جانب سے اس عمل کو سراہتے نظر آ رہے ہیں۔

معاشی تجزیہ کار ولید حسن کا کہنا ہے کہ اگرچہ یہ فیصلہ جمود کا شکار معیشت کو چلانے کے لیے بہتر ہے لیکن اس میں کافی دیر کی گئی ہے۔

انہوں نے امید ظاہر کی کہ اس فیصلے سے اسٹاک مارکیٹ پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ سرمایہ کاروں کو اپنا منجمند پیسہ بینکوں سے نکال کر کاروبار میں لگانے کی ترغیب ملے گی جبکہ ملک میں مہنگائی کے اثرات بھی کم دیکھنے میں آئیں گے۔

معاشی تجزیہ کاروں کے مطابق کرونا وائرس کے پھیلاو سے پیدا شدہ صورت حال میں شرح سود میں گراوٹ کا عمل کسی حد تک معاشی سرگرمیوں کو اپنی نمو بڑھانے میں مدد گار ثابت ہوگا۔

XS
SM
MD
LG