کرونا وائرس یا کووڈ ۔19 دنیا بھر میں زندگی کے روز مرہ معمولات میں تبدیلی کا باعث بنا ہے اور روایتی طریق کار گویا ماضی کی یاد بنتے جا رہے ہیں۔
دور کیا جانا، ہمیں ہی دیکھ لیجئے۔ وائس آف امریکہ اپنی نشریات کے لئے کئی ٹولز استعمال کر رہا ہے اور ہم اپنے اپنے گھروں میں بیٹھ کر آپ کے لئے خبریں اور رپورٹیں پیش کر رہے ہیں۔ نشریات کے ذریعے اپنے سامعین تک پہنچنے کے لئے گھر سے بیٹھ کر پروگرام پیش کرنا آسان نہیں۔ لیکن ہماری بھرپور کوشش یہی ہے کہ آپ تک تازہ ترین معلومات پہنچاتے رہیں۔
اسی طرح امریکہ اور دنیا کے متعدد ملکوں میں اعلیٰ تعلیم اور درس و تدریس کا سلسلہ آن لائن شروع ہوا۔ کالجوں اور یونیورسٹیوں کو بند کر دیا گیا اور استاد اور طالب علموں کے براہ راست رابطے کا سلسلہ بھی کرونا وائرس کی نذر ہو گیا۔ یوں اعلی تعلیم اور درس و تدریس نے دیکھتے ہی دیکھتے اپنا انداز ہی تبدیل کرلیا۔
امریکہ میں اعلیٰ تعلیمی ادارے سب سے پہلے ریاست واشنگٹن، نیویارک اور کیلی فورنیا میں بند ہوئے اور جس پہلے ادارے میں براہ راست تعلیم کا سلسلہ ختم ہوا وہ یونیورسٹی آف واشنگٹن تھی جو سیاٹل شہر کی کنگ کاونٹی میں واقع ہے۔ یہ وہی کاونٹی ہے جہاں کچھ عرصہ پہلے کرونا وائرس سے متعدد اموات ہوئی تھیں۔
اعلیٰ تعلیم کی درس و تدریس کے ذمہ دار اور ماہرین اس صورت حال کو غیر معمولی قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ تعلیمی معیار پر اس کے دور رس اثرات کے بارے میں پیش گوئی کرنا دشوار ہے۔ امریکہ کے بفیلو اسٹیٹ کالج میں کمیونیکیشنز اور ایتھکس کی تعلیم دینے والے پروفیسر فیضان حق نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ روز مرہ درس و تدریس میں وہ متعدد آن لائن ٹولز استعمال کرتے ہیں لیکن استاد اور طالب علم کے درمیان براہ راست رابطے کا فقدان بہر طور منفی پہلو رکھتا ہے۔
پروفیسر فیضان نے بتایا کہ دنیا بھر میں آن لائن درس و تدریس کے لئے متعدد طریقے استعمال کے جا رہے ہیں جن میں یو ٹیوب۔ فیس بک، اسٹریمنگ، اسکائپ اور زوم کو استعمال کیا جاتا ہے۔
پروفیسر فیضان نے گو ٹو میٹنگ کا حوالہ بھی دیا جس کی مدد سے آپ آن لائن کسی کے ساتھ بھی رابطہ کر سکتے ہیں اور یوں اس کے ذریعے ابلاغ ممکن ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے ای میلنگ اور ٹیکسٹنگ کا بھی ذکر کیا جو طالب علموں کے ساتھ آن لائن رابطے کی صورت میں استعمال ہوتے ہیں۔ پروفیسر فیضان کہتے ہیں کہ سبھی طریقے قابل عمل اور مفید ہیں لیکن براہ راست رابطے اور استاد طالب علم مکالمے کی اہمیت اپنی جگہ برحق ہے۔
پاکستان میں بھی کرونا کیسز کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کی قیادت میں پہلے نیشنل کوآرڈی نیشن کمیٹی کا اجلاس ہوا جس کے بعد اعلیٰ سطح کی نیشنل سیکیورٹی کمیٹی کے اجلاس میں اہم فیصلے ہوئے اور حکومت نے ملک بھر کے تعلیمی اداروں کو بند کرنے کا اعلان کر دیا۔ اعلیٰ تعلیم کے لئے درس و تدریس کا آغاز بھی آن لائن ہوا۔
ڈاکٹر زمرد اعوان نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے آن لائن تعلیمی پروگرام کی تفصیل بتاتے ہوئے کہا، ’’جب سے حکومت نے تعلیمی اداروں میں کرونا وائرس کے پیش نظر چھٹیوں کا اعلان کیا، اساتذہ اور انتظامیہ اس غیر متوقع صورت حال سے نمٹنے کے لیے مختلف قسم کے آن لائن سافٹ ویئر استعمال کرنے لگے ہیں۔ ایف سی میں چونکہ پچھلے تقریباَ 3 سال سے ماڈل استعمال ہو رہا تھا جس پر گفتگو، اسائنمنٹ، کوئز، چیٹ اور فورمز کی سہولیات موجود ہیں، مگر اسے استعمال کرنا لازمی نہیں تھا۔ اس اچانک صورت حال کی وجہ سے یہ اب لازمی ہو گیا ہے ۔‘‘
ڈاکٹر زمرد اعوان نے مذید کہا کہ پاکستان میں ابھی بھی بہت سے ایسے ادارے اور اساتذہ موجود ہیں جو آن لائن درس و تدریس سے نا واقف ہیں۔ البتہ یہ حالات اب اُنہیں اس قابل بنائیں گے کہ وہ ٹیکنالوجی کا استعمال کر سکیں۔ یہاں یہ کہنا ضروری ہے کہ آج کے طالب علم، اساتذہ کی نسبت ٹیکنالوجی میں بہت آگے ہیں اور اس صورت حال میں اساتذہ کو چاہئیے کہ روایتی درس و تدریس سے بڑھ کر وہ طریقے متعارف کروائیں جس میں جدت اور علم دونوں ہوں۔
ڈاکٹر زمرد نے آن لائن درس و تدریس کے مثبت اور منفی پہلوؤں کے بارے میں بات کی ۔ وہ کہتی ہیں کہ آن لائن تعلیم دینے کے مثبت پہلو دیکھیں تو میرے خیال میں سب سے پہلے نئی ٹیکنیک اور طریقوں سے درس و تدریس کا عمل استاد اور طالبعلم دونوں کے لئے دلچسپ ہے کیونکہ اس میں جدت اور اختراع ہے۔
اس کے علاوہ آن لائن تعلیم کے لئے آرگنائزیشن یا منظم ہونا کلیدی نکتہ ہے۔ مزید یہ کہ استاد کو طالب علموں کے ساتھ انفرادی رابطے کی ضرورت ہے جو معمول کے طریقہ کار میں عام طور پر نظر انداز ہو جاتا ہے۔
جہاں تک منفی پہلو کا تعلق ہے، ان میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہر طالب علم کے پاس انٹرنیٹ کی سہولت نہیں، خاص طور پر ہمارے فاٹا، بلوچستان، سندھ اور گلگت کے علاقوں سے تعلیم حاصل کرنے والے طالب علموں کے لئے یہ ایک دشوار صورت ہے کہ وہ باقاعدگی سے آن لائن سیشنز میں شامل ہو سکیں یا پھر آن لائن ہدایات سے استفادہ کر سکیں۔
دوسرے طالب علموں کے لئے آن لائن درس و تدریس کا سلسلہ بالکل نیا ہے اور وہ اس سے پوری طرح مانوس نہیں۔ انہیں اس کا عادی ہونے کے لئے وقت درکار ہے۔
آن لائن درس و تدریس کے لئے اضافی تیاری درکار ہوتی ہے کیونکہ اس نوعیت کے سیشنز کی ضرورت ہے کہ طالب علموں کو کام کرتے ہوئے نقل کرنے کی عادت نہ پڑ جائے۔
پاکستان میں ہائی اسپیڈ انٹرنیٹ ابھی بھی ایک مسئلہ ہے۔ اس لئے رابطہ کاری کا مسئلہ درپیش رہتا ہے اور اس وجہ سے آن لائن درس و تدریس میں خلل پڑتا ہے۔
ڈاکٹر زمرد کہتی ہیں کہ پھر بھی نئے چیلنج زندگی کو آگے بڑھنے اور طالب علموں کے مسائل کا حل تلاش کرنے کی سوچ دیتے ہیں۔