" اس عالمی وبا کو امن کے زمانے میں،" فرد کی آذادی کے خلاف، سب سے وسیع تر کچھ پابندیوں "کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔ یہ کہنا ہے آئی پی آئی کی ڈائرکٹر باربرا ٹرائینفی کا۔
کرونا وائرس پر قابو پانے کے لئے جو "موبائیل ایپس"اور"ڈیٹا کلیکشن "نصب کئے گئے ہیں، ان کا ایک انتہائی پریشان کن رخ سامنے آیا ہے۔ وہ ہے حکومتوں کی جانب سے پرائیوسی میں طویل مداخلت اور ایسی جاسوسی جس کا صحافیوں کے خلاف استعمال ہونے کا امکان ہو سکتا ہے۔
چین میں عمارتوں، اسٹورز، بسوں اور ٹرینوں میں داخل ہونے والے افراد کے لئے لازمی ہے کہ وہ ایک ایسے "ایپ"کا استعمال کریں، جو ان کی صحت اور جائے مقام کے بارے میں اطلاعات فراہم کرتا ہے۔
ڈیجیٹل رائٹس کی تنظیم، ای ایف ایف کا کہنا ہے کہ چین کے نگرانی کے نظام نے، مقامی پولیس کو معلومات فراہم کیں۔ جس کی بنیاد پر انہیں قرنطینہ میں بھیجا گیا۔ ڈیجیٹل رائٹس کی تنظیم کا کہنا ہے کہ اس نوعیت کا ڈیٹا بھیجنے کا طریقہ کار اکثر ہماری تقریر اور اجتماع کی آذادی میں رکاوٹ ڈالتا ہے اور نسلی اقلیتوں کو نشانہ بناتا ہے۔
انٹرنیشنل پریس انسٹی ٹیوٹ یا " آئی پی آئی" نے بھی اس ہفتے، ان ہنگامی اقدامات کو، صحافیوں کے خلاف استعمال کرنے کے بارے میں، انتباہ کیا ہے۔
آئی پی آئی کی ڈائرکٹر باربرا ٹرائینفی کہتی ہیں، " اس عالمی وبا کو امن کے زمانے میں،" فرد کی آزادی کے خلاف، سب سے وسیع تر کچھ پابندیوں "کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایسے کوئی بھی اقدامات عارضی اور صحت کے اس فوری بحران کو حل کرنے تک محدود ہونے چاہئیں۔
اسی طرح جاسوسی کی اضافی اہلیت کو بھی جو جھوٹی اور گمراہ کن خبروں کے قوانین کا حصہ ہیں، ملکوں نے، ہیلتھ کیئر کے بحران کی رپورٹنگ کرنے والے صحافیوں کے خلاف انتقامی کاروائی کے لئے استعمال کیا ہے، اور ایسے ہنگامی اقدامات کا نفاذ کیا ہے جو آذادی اظہار کے حق میں مداخلت ہیں۔
کم از کم دو ملکوں میں بلاگرز کو ،محض ایک جملے پر مشتمل پوسٹنگ کے لئے قید کی ممکنہ سزاؤں کا سامنا ہو سکتا ہے۔
"کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس" نے اطلاع دی ہے کہ ہونڈورس میں حکومت نے جس ہنگامی حالت کا نفاذ کیا ہے وہ آئین کی ایسی شقوں کی خلاف ورزی کرتی ہے جن میں اظہار کی آزادی شامل ہے۔ اسی طرح جنوبی افریقہ نے ایک قانون منظور کیا ہے، جو وائرس کے بارے میں یا اس سے نمٹنے کے حکومت کے طریقہ کار کے بارے میں، کسی غلط اطلاع کو ایک جرم سے تعبیر کرتا ہے۔
سی۔پی۔جے کی ریڈش نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ "فالز نیوز" سے متعلق قوانین کی آڑ میں حکومتوں کو آزاد رپورٹنگ پر پابندی لگانے کا ایک بہانہ مل گیا ہے۔ اور ان کے ادارے نے حالیہ ہفتوں میں چین، تھائی لینڈ اور ایران میں ایسے جرنلسٹوں کے خلاف انتقامی کاروائیاں دیکھی ہیں جو وائرس کی کوریج کر رہے تھے۔
مصر میں جہاں کم از کم اکیس صحافی "فالز نیوز" کے قانون کے تحت جیل میں ہیں۔ وہاں حکام نے وزٹس پر دس دن کی پابندی عائد کر دی، جس کے نتیجے میں ایسے قیدیوں کے لئے لازمی خوراک کی فراہمی میں رکاوٹ پیدا ہو گئی جو ان کے گھر والے فراہم کر تے تھے۔