رسائی کے لنکس

سوئیڈن: قرآن نذرِ آتش کرنے والا شخص فائرنگ سے ہلاک، پانچ مشتبہ افراد گرفتار


سلوان مومیکا۔ (فائل فوٹو)
سلوان مومیکا۔ (فائل فوٹو)

  • سلوان مومیکا نے 2023 میں متعدد بار قرآن نذر آتش کیا تھا اور انہیں سوئیڈن کی عدالت میں اشتعال انگیزی کے مقدمے کا سامنا تھا۔
  • پولیس کے مطابق سلوان مومیکا کو ان کی رہائشی عمارت میں داخل ہوکر فائرنگ کا نشانہ بنایا گیا تھا۔
  • بعض مقامی میڈیا اداروں کا کہنا ہے کہ ممکنہ طور پر مومیکا پر حملے کے واقعے کی لائیو اسٹریمنگ کی گئی ہے۔
  • سلوان مومیکا کا تعلق عراق کی مسیحی کمیونٹی سے تھا اور وہ 2018 سے سوئیڈن میں مقیم تھے۔
  • سوئیڈن کے وزیرِ اعظم نے کہا ہے کہ حملے میں بیرونی طاقت ملوث ہوسکتی ہے۔

ویب ڈیسک _سوئیڈن میں متعدد بار مسلمانوں کی مقدس کتاب قرآن نذرِ آتش کرنے والے شخص کو گولی مار کر ہلاک کردیا گیا ہے۔

جمعرات کو مقامی حکام نے تصدیق کی ہے کہ 38 سالہ سلوان مومیکا کے قتل کی تحقیقات شروع کردی گئی ہیں اور پانچ مشتبہ افراد کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔

اسٹاک ہوم کے ایک پراسیکیوٹرنے بتایا کہ ابھی تحقیقات ابتدائی مراحل میں ہے اور مزید معلومات جمع کی جارہی ہیں۔

پولیس کا کہنا ہے کہ بدھ کو اسٹاک ہوم کاؤنٹی کے سوڈرٹالج شہر میں ایک عمارت میں فائرنگ کے واقعے کی اطلاع موصول ہوئی۔ یہ واقعہ اس عمارت میں پیش آیا تھا جہاں مومیکا کی رہائش تھی۔

پولیس نے بتایا کہ انہیں وہاں ایک شخص زخمی حالت میں ملا جسے گولیاں ماری گئی تھیں جسے اسپتال منتقل کیا گیا لیکن وہ جانبر نہیں ہوسکا۔ بعدازاں ہلاک ہونے والے کی شناخت سلوان مومیکا کے نام سے ہوئی۔

مقامی میڈیا کا کہنا ہے کہ ممکنہ طور پر مومیکا کو نشانہ بنانے کی لائیو اسٹریمنگ کی گئی ہے۔ ایک مقامی اخبار کے مطابق حملہ آور چھت پھلانگ کر عمارت میں داخل ہوا تھا۔

سلوان مومیکا عراقی مسیحی تھے جنھوں نے اپنے ساتھی سلوان نجم کے ساتھ مل کر 2023 کے دوران چار بار قرآن نذرِ آتش کیا تھا۔

اگست 2023 میں ان پر سوئیڈن میں ’’ایک خاص نسلی گروہ کو نشانہ‘‘ بنانے کے الزام میں مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

مومیکا پر عائد فرد جرم میں کہا گیا تھا کہ انہوں نے اپنے ساتھی کے ساتھ اسٹاک ہوم کی ایک مسجد کے باہر قرآن نذر آتش کیا اور مسلمانوں کے خلاف توہین آمیز بیانات دیے۔

قرآن نذرِ آتش کرنے کے واقعات کے بعد کئی ممالک میں سوئیڈن کے خلاف احتجاج ہوا تھا اور مشرقِ وسطیٰ کے کئی ممالک کے ساتھ اس کے تعلقات بھی کشیدہ ہوگئے تھے۔

جولائی 2023 میں بغداد میں سوئیڈن کے سفارت خانے پر عراقی مظاہرین نے دو بار دھاوا بول دیا تھا اور اس کی حدود میں آگ بھی لگا دی تھی۔

اگست 2023 میں سوئیڈن کی اںٹیلی جینس سروس نے قرآن نذر آتش کرنے کے واقعات کی بنیاد پر داخلی سیکیورٹی خطرات بڑھنے کا الرٹ بھی جاری کیا تھا۔

مومیکا نے اسی برس ایک مقامی اخبار سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ قرآن نذرِ آتش کرنے کا مقصد سوئیڈن کو خطرے میں ڈالنا نہیں ہے۔

جمعرات کو مومیکا کے خلاف اسٹاک ہوم کی ایک عدالت اشتعال انگیزی کے مقدمے میں فیصلہ سنانے والی تھی تاہم مومیکا کی ہلاکت کے باعث یہ سماعت ملتوی کردی گئی ہے۔

سلوان مومیکا 2018 سے سوئیڈن میں مقیم تھے البتہ اکتوبر 2023 میں سوئیڈش مائیگریشن ایجنسی نے غلط معلومات فراہم کرنے پر ان کا رہائشی اجازت نامہ منسوخ کردیا تھا تاہم انہیں عارضی طور پر سوئیڈن میں رہنے کی اجازت دے دی گئی تھی۔

بعدازاں عراق نے بھی مومیکا کی حوالگی کے لیے سوئیڈن سے رابطہ کیا تھا۔

مارچ 2024 میں مومیکا سیاسی پناہ کے لیے ناروے چلے گئے تھے لیکن چند ہفتوں بعد ہی ناروے نے انہیں دوبارہ سوئیڈن ملک بدر کردیا تھا۔

سال 2018 میں سوئیڈن آنے سے قبل مومیکا کی سوشل میڈیا پوسٹس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ عراق میں سیاسی طور پر متحرک تھے اور وہ داعش سے لڑنے والے ایک مسیحی مسلح گروپ کا بھی حصہ رہے تھے۔

مومیکا کی ہلاکت پر اپنے ردِ عمل میں سوئیڈن کے وزیرِ اعظم نے کہا ہے کہ عراقی پناہ گزین کے قتل میں غیر ملکی طاقتیں ملوث ہوسکتی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ میں یقین دہانی کراتا ہوں کہ سیکیورٹی سروسز اس معاملے کا گہرائی سے جائزہ لے رہی ہیں۔

یہ رپورٹ' اے ایف پی 'سے لی گئی ہے۔

فورم

XS
SM
MD
LG