|
ویب ڈیسک -- سابق امریکی سینیٹر باب میننڈز کو رشوت لینے اور مصر کے ایجنٹ کے طور پر کام کرنے کے جرم میں 11 برس قید کی سزا سنا دی گئی ہے۔
بدھ کو نیو یارک کی وفاقی عدالت نے سزا کا اعلان کیا تو ڈیمو کریٹک سابق سینیٹر نے روتے ہوئے کہا کہ "میں نے اپنے خاندان کے سوا سب کچھ کھو دیا ہے۔"
باب میننڈز سینیٹ کی خارجہ تعلقات کمیٹی کے چیئرمین بھی رہ چکے ہیں۔
باب میننڈز پر نیو جرزی کے تین تاجروں سے سونا اور نقد رشوت لینے اور مصر کی حکومت کے لیے غیر ملکی ایجنٹ کے طور پر کام کرنے کے الزامات عائد کیے گئے تھے۔
الزامات کے مطابق 71 سالہ سابق سینیٹر نے اپنے عہدے کا غلط استعمال کرتے ہوئے مصر کی انٹیلی جینس حکام سے ملاقاتیں کیں اور مصر کے بارے میں اپنا مؤقف نرم کیا۔
سزا سناتے ہوئے جج نے سابق سینیٹر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ "آپ کامیاب اور طاقت ور تھے اور ہمارے سیاسی نظام کی چوٹی پر کھڑے تھے۔ لیکن مجھے نہیں معلوم کب اور کیوں آپ راستہ بھٹک گئے اور لوگوں کی بھلائی کے بجائے آپ اپنے فائدہ کا سوچنے لگے۔"
جج کا مزید کہنا تھا کہ "اس سب کا کیا نتیجہ نکلا؟ آپ کو اپنی سینیٹ کی نشست سے محروم ہونا پڑا اور آپ نے اپنی نیک نامی بھی کھو دی۔"
سابق سینیٹر کو عدالت میں گفتگو کا بھی موقع دیا گیا جس میں اُن کا کہنا تھا کہ انہوں نے بہت سے اچھے کام بھی کیے ہیں۔
باب میننڈز نے جج کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ "کیا آپ واقعی اس شخص کو نہیں جانتے جس کو آپ سزا دینے والے ہیں۔ میں ایک پرفیکٹ شخص نہیں ہوں اور میں نے بہت سی غلطیاں بھی کی ہیں۔ لیکن میں نے بہت سے اچھے کام بھی کیے ہیں۔ لہٰذا اس کو ذہن میں رکھتے ہوئے سزا سنائیں۔"
سابق سینیٹر کے وکیل نے جج سے کہا کہ باب میننڈز کو اُن کی غیر معمولی عوامی خدمات اور قربانیوں کا بھی کریڈٹ دیا جانا چاہیے۔ لیکن بدقسمتی سے اب اُنہیں 'گولڈ بار باب' کہا جا رہا ہے۔
اس سے قبل باب میننڈز اپنے خلاف الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہتے رہے ہیں کہ وہ کبھی بھی مصر کے ایجنٹ نہیں رہے۔
اس رپورٹ کے لیے بعض معلومات ایسوسی ایٹڈ پریس سے لی گئی ہیں۔
فورم