|
ملائیشیا میں شیر وں کی ایک قسم تیزی سے ختم ہوتی جا رہی ہے، جس کی وجہ اس کا بڑے پیمانے پر شکار ہے۔ شکاری شیروں کے مختلف اعضا کو دوسرے ملکوں میں اسمگل کر دیتے ہیں۔
پابندیوں اور پکڑے جانے کے خطرے سے بچنے کے لیے شکاریوں نے اسمگلنک کے لیے انوکھا طریقہ اختیار کر لیا ہے۔ وہ اس مقصد کے لیے ماہی گیروں کی کشتیاں استعمال کرتے ہیں، اور مختلف سمندری راستوں سے ہوتے ہوئے اپنی منزل ویت نام پر پہنچ جاتے ہیں۔
ایک تازہ ترین تحقیق سے ظاہر ہوا ہے کہ کشتیوں کے ذریعے اسمگلنگ زمینی اور فضائی راستوں کے مقابلے میں کم خرچ ہوتی ہے اور کسٹم حکام کی جانب سے پکڑے جانے کا خطرہ بھی کم ہوتا ہے۔
بیسوی صدی کے وسط تک ملائیشیا میں ان شیروں کی تعداد 3,000 تھی جو اب گھٹ کر صرف 150 تک رہ گئی ہے۔
گزشتہ 25 برسوں میں یہ شیر کمبوڈیا، لاؤس اور ویت نام میں پہلے ہی نا پید ہو چکے ہیں اور ملائیشیا میں بھی ان کی بقا کو شدید خطرہ ہے۔
ملائیشیا کے تیزی سے معدوم ہوتے ہوئے شیروں پر یہ تحقیق ملائیشیا کی سن وے یونیورسٹی، اور جانوروں کے تحفظ کی تنظیموں" پینتھرا "اور "زی ایس ایل" نے مشترکہ طور پر کی ہے۔
نایاب شیر معدوم کیوں ہو رہےہیں ؟
گزشتہ 25 برسوں کے دوران یہ شیر کمبوڈیا، لاؤس اور ویت نام میں پہلے ہی ناپید ہو چکے ہیں۔ شکار کے علاوہ اور وجوہات بھی ان شیروں کی تعداد میں کمی کا باعث بنی ہیں۔
مثال کے طور پر جنگلوں کے خاتمے کی وجہ سے ان کے رہنے کے مقامات کم ہوتے گئے ہیں۔
حالیہ برسوں میں شکاریوں کے علاوہ ایک وائرس نے بھی کئی شیروں کی جان لی ہے۔علاوہ ازیں، شیروں کو جنگلی خنزیروں کے وائرس سے بھی نقصان پہنچا ہے، جنہیں مار کر وہ کھاتے ہیں۔
جانوروں کے بچاۂ کی تنظیم پینتھرا سے منسلک اور اس تحقیق کے مصنف راب پکلز کہتے ہیں کہ ایسا لگتا ہے کہ اس نایاب قسم کے بچے کھچےشیر اب اپنی آخری سانسیں لے رہے ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ہمارے پاس انہیں بچانے کا یہ آخری موقع ہے۔
شیروں کا شکار کیسے کیا جاتا ہے؟
یہ نایاب شیر جزیرہ نما ملائیشیا میں رہتے ہیں جو شمال میں زمین کے راستے سے تھائی لینڈ سے جڑا ہوا ہے۔شکاریوں کا تعلق ملائیشیا، کمبوڈیا اور تھائی لینڈ سے ہوتا ہے۔
جب کہ ویت نام کے شکاری بھی بڑے پیمانے پر اس میں ملوث ہیں۔ لگ بھگ تمام شکاریوں کا تعلق کوانگ بنھ دیہی صوبے سےہے جو انتہائی غریب علاقہ ہے۔
ویت نام جنگ کے دوران امریکی حملوں سے بچنے کے لیے بہت سے لوگوں نے اس صوبے میں پناہ لی تھی۔
شکاریوں کی ٹیموں کو جنگلی علاقوں میں رہنے کی مہارت ہوتی ہے اور وہ اپنی مہم جوئی کے دوران تین سے پانچ ماہ تک جنگل میں آسانی سے گزار لیتی ہیں۔
شکار کے لیے یہ لوگ اسٹیل کے مضبوط جال استعمال کرتے ہیں۔شیروں کو پکڑنے اور ہلاک کرنے کے بعد ان کی ہڈیاں علیحدہ کی جاتی ہیں۔ پھر انہیں کئی روز تک ابالا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ گوند نما شکل اختیار کرلیتی ہیں جنہیں چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں کی صورت میں محفوظ کر نے کے بعد فروخت کر دیا جاتا ہے۔
انہیں مختلف بیماریوں کے علاج کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ جب کہ شیروں کے پنجے اور دانت تعویذ بنانے کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔
محققین نے اپنے تحقیق کے لیے 50 شکاریوں کے انٹرویو کرنے کے بعد 2024 میں اپنی رپورٹ جاری کی۔
ماہرین کی شیروں کے بچا ؤ کی تجاویز
تازہ ترین تحقیق کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ یہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی شیروں کے تحفظ میں مددگار ہو گی۔
تحقیق کے مصنف راب پکلز نے اس توقع کا اظہار کیا ہے کہ یہ تحقیق نایاب جانوروں کے شکار اور ان کے اعضاء کی اسمگلنگ کے مسئلے کو سمجھنے میں مدد گار ثابت ہو گی ۔
حالیہ برسوں میں ملائیشیا کے حکام کو شکاریوں کو پکڑنے میں کسی حد تک کامیابی ہوئی ہے۔حکومت نے جنگلی جانوروں کے خلاف جرائم میں ملوث ہونے کی سزائیں بھی سخت کی ہیں۔ تاہم شکاری شاذو نادر ہی پکڑے جاتے ہیں۔
ملائیشیا اور ویت نام کے حکام نے خبر رساں ادارے "ایسو سی ایٹڈ پریس" کی رپورٹ پر ابھی تبصرہ نہیں کیا ہے۔
تحقیق کے شریک مصنف اور زی ایس ایل تنظیم سے منسلک گوپال روبن کہتے ہیں کہ یہ مسئلہ محض گرفتاریوں یا سزاؤں کے نظام سے حل نہیں کیا جا سکتا۔
ان کا کہنا ہے کہ ’ہمیں روئیوں میں تبدیلی جیسی کوششوں پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے جو گرفتاریوں اور مقدمات کے ساتھ ساتھ کام کریں‘۔
(اس خبر میں شامل معلومات اور تصویریں اےپی سے لی گئی ہیں)
فورم