عبداللہ غنیم فلسطینی کاشتکار ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کی زندگی کے دن کب کے پورے ہو چکے ہیں۔ ’’انھوں نے میری زمین پر قبضہ کر لیا ہے ۔‘‘
بیت اللحم کے نزدیک انگوروں اور زیتون کا یہ چھوٹا سا باغ، سینکڑوں سال سے ان کے گھرانے کی ملکیت رہا ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کے اس باغ کے تین طرف اسرائیلی بستیاں ہیں اور جیسے جیسے یہ بستیاں پھیل رہی ہیں، ان کا باغ سکڑتا جا رہا ہے ۔ آج صبح انھوں نے دیکھا کہ ایک نزدیکی یہودی بستی میں رہنے والوں نے ان کی زمین پر خار دار تار لگا دیے ہیں اوروہاں زیتون کے درختوں کی کاشت کر دی ہے ۔
عبداللہ غنیم کہتے ہیں’’انھوں نے میری زمین چُرا لی ہے ۔ یہ بستی میری زمین پر بسائی گئی ہے ۔ اس بستی کے بارے میں، آپ کے خیال میں، میں کیا سوچتا ہوں؟ اگر کوئی آپ کی زمین پر زبردستی قبضہ کر لے ، تو کیا آپ اسے اچھا سمجھیں گے ؟‘‘
اسرائیل نے 1967 میں اس علاقے پر قبضہ کرنے کے بعد سے ہی، یہودیوں کی حوصلہ افزائی کی ہے کہ وہ یہاں بستیاں بسائیں۔ بہت سے لوگ یہاں اپنے مذہبی عقائد کی بنیاد پر آئے کہ ان کی قدیم مذہبی کتابوں میں ، ہزاروں سال پہلے، خدا نے یہودیوں کو یہ زمینیں دینے کا وعدہ کیا ہے ۔ اسرائیل میں کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ان زمینوں پر یہودی بستیاں بسانے سے اس یہودی ملک کو جو دشمنوں سے گھرا ہوا ہے، سکیورٹی مل جائے گی ۔
صلاح تماری بیت اللحم کے سابق گورنر ہیں جو یہودی بستیوں کے بارے میں کمیٹی کے سربراہ بھی تھے ۔ وہ کہتے ہیں’’اس مسئلے کے بارے میں یہودیوں کو خود فیصلہ کرنا ہوگا کہ اسرائیل کی سکیورٹی کے لیے ، اسرائیل کے وجود کے لیے یہ بستیاں کتنی اہم ہیں۔ اس کے بر عکس، میرے خیا ل میں، یہ بستیاں اور آباد کار، ان کی ذہنیت اور ان کی پالیسیوں سے اسرائیل کی سکیورٹی کو نقصان پہنچ رہا ہے ۔ میرے خیال میں جب تک فلسطینیوں کے درمیان آبادکار موجود رہیں گے، کشیدگی باقی رہے گی اور خونریزی کا امکان موجود رہے گا۔‘‘
مذاکرات شروع ہوئے تو زیادہ تر توجہ سرحدوں اور سکیورٹی کو دی گئی ۔ اسرائیل کی اولین ترجیح سکیورٹی ہے ۔ فلسطینی سرحدوں کے مسئلے پر زور دیتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ بالآخر یہودی بستیوں میں تعمیر پر مکمل پابندی لگ جائے اور فلسطینی مملکت کے قیام کی راہ ہموار ہو جائے۔
نبیل Shaath فلسطینیوں کے سینیئر مذاکرات کار ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ انھوں نے مذاکرات میں یہودی بستیوں کے معاملے پر کیوں زور دیا ہے ۔’’ہم 19 برسوں سے یہی کچھ ہوتے دیکھ رہے ہیں۔ جب ہم نے اوسلو معاہدے پر دستخط کیے تھے ، اس وقت آبادکاروں کی تعداد 1,50,000 تھی ۔ آج مغربی کنارے میں 450,000 آباد کار ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگرچہ ہم بڑی امیدوں کے ساتھ مذاکرات کر رہے تھے، قبضہ کرنے کی جو رفتار تھی اس میں مسلسل تیزی آ رہی تھی۔‘‘
یہودی بستیوں کی آبادی میں اضافے کے اعداد و شمار میں اختلاف ہے، لیکن اسرائیلی اور فلسطینی اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ گذشتہ دو دہائیوں کے دوران ، آبادی میں زبردست اضافہ ہوا ہے ۔
عبداللہ غنیم کو امید ہے کہ جلد ہی امن کا کوئی حتمی سمجھوتہ ہو جائے گا۔ ان کا خیال ہے کہ اسرائیلی آباد کار جلد ہی انہیں اپنی زمین سے بے دخل کر دیں گے۔ وہ کہتے ہیں’’صرف نئی تعمیر کو روکنا کافی نہیں ہے ۔ ہمارا مطالبہ یہ ہے کہ وہ تمام بستیوں کو ختم کریں۔ ہم ان کا قبضہ ختم کرنا چاہتے ہیں۔‘‘
غنیم کو تشویش ہےکہ اگر جلد ہی کوئی حتمی سمجھوتہ نہ ہوا، تو اندیشوں، ناراضگی اور مایوسی کی وجہ سے مزید خونریزی ہو سکتی ہے ۔ انھوں نے اپنے لیڈروں، اسرائیل اور امریکی ثالثی سے یہ آس لگا رکھی ہے کہ امن کا عمل زندہ رہے گا اور غصہ اور ناراضگی کم ہو جائے گی۔