فلسطین اور اسرائیل کے درمیان قیامِ امن کے لیے ہونے والے دو رو زہ براہِ راست مزاکرات نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوئے تاہم امریکی وزیرِ خارجہ ہیلری کلنٹن تنازعے کے تمام اہم فریقوں سے بات چیت میں مصروف ہیں۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ مشرق وسطیٰ کے اس دیرینہ تنازع کے حل میں جو رکاوٹیں درپیش ہیں ان میں مغربی کنارے میں ایک سو سے زائد یہودی بستیاں سرِ فہرست ہیں ۔ فلسطینی ان علاقوں میں ، جسے وہ اپنی مستقبل کی ریاست کا حصہ سمجھتے ہیں، ان بستیوں کی تعمیر کے خلاف ہیں اور انہوں نے یہ کہا ہے کہ اگر 26 ستمبر کوتعمیر پر عائد ختم ہونے والی جزوی پابندی میں توسیع نہ کی گئی تو وہ اسرائیل سے ہونے والےمذاکرات سے الگ ہوجائیں گے۔ جب کہ مغربی کنارے کے سب سے بڑے شہر ہیبرون میں رہنے والے فلسطینی صرف بستیوں کی تعمیر روکنا ہی نہیں بلکہ ان کا مکمل خاتمہ چاہتے ہیں۔
بدر محمد جباری کی جن کا گھر کئی نسلوں سے کریات اربا نام کی ایک یہودی بستی کے قریب واقع ہے ، وہاں ہر صبح ایسی ہوتی ہے کہ اسرائیل کی حفاظتی پابندیوں کی وجہ سےوہ اپنی کار اپنے گھر تک نہیں لے جا سکتے ۔ اس لئے انہیں گھر کا سودا سلف یا ایندھن ہاتھوں اور کندھے پر اٹھا کرلے جانا پڑتا ہے۔
جباری ہیبرون کے ایک ایسے علاقے میں رہتے ہیں ، جو کریات اربا نام کی بستی کا حصہ ہے ۔ یہ اس علاقے میں سینکڑوں سال سے آباد فلسطینیوں اور یہودی آباد کاروں کے درمیان جھگڑے کے عین درمیان میں رہائش پذیر ہیں۔ یہودی آباد کار چند عشرے قبل یہاں آکر رہائش پذیر ہوئے ہیں۔ ہیبرون کے علاقے میں ان دونوں گروپوں کے درمیان کشیدگی کے کئی واقعات ہو چکے ہیں ۔ اسرائیلی فوجیوں کا کہنا ہے کہ فلسطینیوں کی گاڑیوں پر پابندی فلسطینی شہریوں کی جانب سے یہودی آباد کاروں اوران کی حفاظت پر معمور اسرائیلی فوجیوں پر حملوں کی وجہ سے لگانی پڑی ۔
جباری اوران جیسے دوسرے فلسطینیوں کے نزدیک اسرائیلی فوجیوں کے پہرے کا مطلب ہے روزانہ کا خوف و ہراس اور سراسیمگی۔ اس جگہ سے گذرتے ہوئے انہیں سیکیورٹی گارڈ روک کر شناختی دستاویزات طلب کرتے ہیں اور پوچھ گچھ کرتے ہیں۔
اسرائیلی فوجیوں کا کہنا ہے کہ سیکیورٹی اہل کار ایسے تمام لوگوں سے ان کی شناختی دستاویز دکھانے کا مطالبہ کرتے ہیں جو آبادکاروں کے لئے خطرہ بن سکتے ہوں
بدر محمد جباری کہتے ہیں کہ ان سے کسی یہودی آباد کار کو کوئی خطرہ نہیں اور انہوں نے بار بار اسرائیلی انتظامیہ سے اپنے گھر تک گاڑی لانے کا اجازت نامہ طلب کیا مگر ایسا نہیں ہوا ۔ ان کا کہنا ہے کہ یہودی آبادکاروں کی موجودگی میں یہاں امن ممکن نہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ جب وہ امن سے رہنے کا نہیں سوچ رہے تو لوگ بھی ان کے ساتھ امن سے رہنے کا نہیں سوچ سکتے ۔ حل یہی ہے کہ یہودی آباد کار واپس اسرائیل جائیں ۔ اور ہمیں اس فلسطینی اتھارٹی والے علاقے میں رہنے دیں ۔ یعنی دونوں ایک جگہ نہیں رہ سکتے ۔
لیکن جب تک ایسا نہیں ہوتا ، انہیں اسرائیل کی عائد کردہ پابندیوں کے درمیان ہی رہنا ہے، مگر وہ کہتے ہیں کہ فلسطین اور اسرائیل کے درمیان حالیہ امن مذاکرات میں انہیں فلسطینی قیادت سے امید ہے کہ وہ یہودی بستیاں ختم کرنے سے متعلق اپنے مطالبے سے دست بردار نہیں ہوگی۔