ارب پتی فلسطینی تاجر اور صنعت کار منیب المصری نے گزشتہ دنوں یروشلم میں 'وائس آف امریکہ ' کے نمائندے لوئس رمی ریز کو اپنی عالیشان رہائشگاہ پر مدعو کیا اور ان سے فلسطین، اس کے مسائل اور مستقبل کے حوالے سے گفتگو کی۔
فلسطین کی کل معیشت کا ایک تہائی حصہ ارب پتی منیب المصری کی دولت پر مشتمل ہے۔ امریکہ میں تعلیم پانے والے ماہرِ ارضیات نے یہ دولت امریکہ میں تیل اور گیس کے کاروبار سے کمائی۔ بعد ازاں وہ اپنے آبائی شہر نابلوس منتقل ہوگئے جہاں انہوں ایک پہاڑی پر اطالوی طرز کا ایک خوبصورت اور وسیع گھر تعمیر کرایا جس سے پورے مغربی کنارے کا نظارہ کیا جاسکتا ہے۔
پلاڈین طرزِ تعمیر کے شاہکار اس خوبصورت محل نما گھر کی تعمیر گزشتہ دہائی میں اس وقت ہوئی تھی جب فلسطین پہ اسرائیلی قبضے کے خلاف دوسری "انتفاضہ تحریک" اپنے زوروں پر تھی۔ رہائش گاہ کے اردگرد موجود خوبصورت باغات 17 ویں صدی میں تعمیر ہونے والے 'محلِ ورسیلز' کی یاد دلاتے ہیں۔
محل کے اندر ایک وسیع و عریض راہداری نما کمرہ المصری کا مہمان خانہ ہے جہاں ایک معروف فلسطینی موسیقار کی ترتیب دی گئی دھن کے پسِ منظر میں وہ امریکہ میں گزارے گئے اپنی زندگی کے ابتدائی ایام کی یادِیں تازہ کرتے ہیں۔
"میں جب 19 برس کا تھا تو میں نے شکاگو میں پلاڈین طرزِ تعمیر کا حامل ایک خوبصورت گھر دیکھا تھا۔ میں نے اس وقت ہی یہ سوچ لیا تھا کہ جب میں اپنے گھر فلسطین لوٹوں گا تو وہاں اپنے لیے ایک ایسا ہی گھر بنائوں گا"۔
المصری کو 60 برس قبل کا وہ دن اب بھی یاد ہے جب وہ نیو یارک پہنچے تھے اور ان کی کل متاع صرف 200 ڈالرز تھے ۔ ان 200 ڈالرز کے ساتھ انہوں نے نیویارک سے 2800 کلومیٹر دور واقع آسٹن کا سفر کرنا تھا جہاں واقع 'یونیورسٹی آف ٹیکساس' میں ان کا داخلہ ہوا تھا۔
"جب میں نیویارک کے ایئر پورٹ پر اترا تو میری جیب میں کل 200 ڈالرز تھے۔ میں نے اپنی ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں ایک ٹیکسی والے سے کہا کہ مجھے ٹیکساس لے چلو۔ اس نے حیرت سے مجھے دیکھا اور کہا 'کیا تم پاگل ہو؟'۔ پھر وہ مجھے 'گرے ہائونڈبس' کے اڈے پر چھوڑ گیا جس کے ذریعے میں مسلسل تین راتیں اور چار دن کے سفرکے بعد بالآخر ٹیکساس پہنچنے میں کامیاب ہوگیا"۔
یونیورسٹی میں اپنی تعلیم کے دوران گزر اوقات کیلیے المصری 'بیورلی ہلز ' کے علاقے میں قائم ایک بار میں جزوقتی ملازمت کیا کرتے تھے۔ اور یہی وہ وقت تھا جب انہوں نے اپنے لیے اپنے آبائی شہر میں ایک خوبصورت گھر تعمیر کرنے کا خواب دیکھا۔ المصری اپنے اس گھر کو 'ریاستِ فلسطین' کا نام دیتے ہیں اور ان کے بقول ان کا یہ گھر اس خواب کی علامت ہو جو انہوں نے فلسطینی قوم کیلیے دیکھا ہے۔
"میرا خواب ہے کہ ہماری ایک ریاست ہو۔ ایک آزاد فلسطینی ریاست جس کے باشندے خطے کے ممالک خصوصاً اسرائیل کے ساتھ پرامن طریقے سے اپنی زندگی گزار سکیں۔ میرے اس گھر کی اس علاقے میں تعمیر دنیا کے سامنے اس حقیقت کا اظہار ہے کہ فلسطینی کچھ بھی کرسکتے ہیں، یہ کہ انہیں زندگی سے پیار ہے اور یہ کہ انہیں فن سے محبت ہے۔ مجھے امید ہے کہ میرا یہ گھر مستقبل کی فلسطینی ریاست میں تحقیق اور ترقی کا ایک مرکز بنے گا"۔
المصری حال ہی میں اپنی قیادت میں ایک فلسطینی وفد لے کر مصر گئے تھے جہاں آنے والی سیاسی تبدیلیوں سے ان کے بقول ان کی ان امیدوں کو تقویت ملی ہے کہ مصر کی نئی قیادت فلسطینیوں اور ان کی جدوجہد کیلیے پہلے سے بڑھ کر ہمدرد اور معاون ثابت ہوگی۔
"ہم مصر جانے سے قبل مختلف قسم کے شکوک و شبہات کا شکار تھے۔ ہم سوچ رہے تھے کہ وہاں ابھی ابھی تبدیلی آئی ہے سو ممکن ہے کہ مصری قیادت مصروف ہو یا ہم ان کی ترجیحات میں شامل نہ ہوں۔ لیکن اس کے برعکس ہم وہاں جتنی بھی جماعتوں کے قائدین سے ملے وہ ہمیں مسئلہ فلسطین اور اس کے حل کیلیے بہت زیادہ پرعزم نظر آئے"۔
المصری مغربی کنارے کی فلسطینی قیادت اور غزہ کی پٹی کا انتظام سنبھالنے والی تنظیم 'حماس' کے درمیان مفاہمت کیلیے بھی کوشاں ہیں۔
"ایک ایسی قوم جو اندرونی طور پر اتنی تقسیم کا شکار ہواپنے لیے کبھی ایک آزاد ملک حاصل نہیں کرسکتی۔ ہمیں رملّہ اور غزہ کے درمیان موجود خلیج کو پاٹنا ہے"۔
المصری کی سرمایہ کاری کا دائرہ ریئل اسٹیٹ سے لے کر ٹیلی مواصلات تک کے شعبوں تک پھیلا ہوا ہے اور وہ مغربی کنارے میں حکومت کے بعد سب سے زیادہ ملازمتیں فراہم کرنے والے فرد ہیں۔ وہ اپنی دولت کے بل بوتے پر دنیا کے کسی بھی حصے میں رہائش اختیار کرسکتے ہیں تاہم اس کے باوجود فلسطین جیسے جنگ زدہ علاقہ میں رہائش اختیار کرنے کے بارے میں ان کا کہنا ہے:
"میں سمجھتا ہوں کہ مجھ پر یہاں بہت بھاری ذمہ داری ہے، بہت کچھ کرنے کی ذمہ داری اور میں یہاں آنے کے اپنے فیصلے سے مطمئن ہوں۔ کبھی کبھار مجھے یہ سوچ کر خود سے نفرت ہونے لگتی ہے کہ میں اپنے لوگوں کیلیے کچھ بھی نہیں کرپایا۔ لیکن جب میں دیکھتا ہوں کہ میرے کاروبار کی بدولت اتنے سارے لوگوں کو ملازمتیں مل رہی ہیں اور میری دولت کی وجہ سے اتنا کچھ ہورہا ہے تو مجھے یک گونہ اطمینان ہوتا ہے"۔
المصری کے بقول وہ ماضی میں کم از کم تین بار فلسطین کی وزارتِ عظمیٰ کی پیشکش ٹھکرا چکے ہیں۔ ان کے بقول اس وقت ان کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہوگا کہ وہ اپنے لوگوں کو ملازمتیں فراہم کرتے رہیں اور فلسطینیوں کی آئندہ نسلوں کیلیے ایک مثال چھوڑ جائیں۔
المصری نے مغربی کنارے میں ایک محل نما گھر کی تعمیر کا اپنا خواب سچ کر دکھایا ہے۔اب انہیں اپنے دوسرے خواب کی تعبیر کا انتظار ہے جو ان کے بقول ایک ایسی آزاد فلسطینی ریاست کا قیام ہے جو پرامن بھی اور ترقی یافتہ بھی۔