|
کوئٹہ -- پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے ضلع قلات میں بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) کے ایک دھڑے کی کارروائی میں 18 سیکیورٹی اہلکاروں کی ہلاکت نے سیکیورٹی ماہرین کے مطابق نہ صرف پاکستان بلکہ چین اور ایران کو بھی تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔ کارروائی کے دوران شدت پسندوں نے کوئٹہ-کراچی شاہراہ کو بھی کئی گھنٹے تک بند رکھا۔
سیکیورٹی ماہرین کہتے ہیں کہ یہ واقعہ ظاہر کرتا ہے کہ صوبے میں سیکیورٹی فورسز کے لیے چیلنجز بڑھتے جا رہے ہیں۔
خیال رہے کہ جمعے اور ہفتے کی درمیانی شب بلوچستان کے ضلع قلات کے علاقے منگوچر میں شدت پسندوں کے حملے میں 18 سیکیورٹی اہلکار ہلاک ہو گئے تھے۔
پاکستان فوج کے ترجمان ادارے 'آئی ایس پی آر ' کے مطابق 24 گھنٹوں کے دوران مختلف آپریشنز میں 23 دہشت گرد بھی مارے گئے۔
ان حملوں کی ذمے داری بی ایل اے کے اس دھڑے نے قبول کی ہے جس کے ترجمان آزاد بلوچ ہیں۔ اس گروہ کی سربراہی برطانیہ میں مقیم جلاوطن بلوچ علیحدگی پسند رہنما حربیار مری کر رہے ہیں۔
کوئٹہ میں زخمیوں کی عیادت کے دوران آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے کہا کہ ’وہ جو اپنے غیرملکی آقاؤں کی ’پراکسیز‘ بنے ہوئے ہیں ان دہرے معیار والوں کو ہم خوب جانتے ہیں۔‘
بی ایل اے کے کمزورسمجھے جانے والا دھڑے کی واپسی؟
بلوچستان میں شورش اور علیحدگی پسندی پر تحقیق کرنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ قلات میں ہونے والے حالیہ حملوں کی اہمیت اس لحاظ سے غیر معمولی ہے کہ یہ حملےبی ایل اے کے اس دھڑے نے کیے ہیں جو طویل عرصے تک اندرونی اختلافات اور قیادت کے مسائل کے سبب تنظیم میں ہونے والی تقسیم کے بعد کافی کمزور تصور کیا جاتا رہا ہے۔
اُن کا کہنا ہے کہ ماضی میں بلوچستان میں زیادہ تر حملے بشیر زیب تن کی قیادت میں بی ایل اے کے منظم دھڑے کرتے رہے ہیں۔ تاہم اس بار یہ کارروائی ایک ایسے دھڑے کی جانب سے کی گئی ہے جو کئی برسوں سے غیر فعال تھا۔
بی ایل اے کی بنیاد 1992 میں رکھی گئی تھی جب کہ 2001 میں قلات میں ہونے والے پہلے حملے کے ذریعے اس نے اپنے وجود کا باقاعدہ اعلان کیا۔
بی ایل اے کے لٹریچر کے مطابق جنوری 2001 میں قلات میں اس کے تین رہنما صوبدار مری، وحید بخش مری اور گل بہار پرکانی کو ہلاک کیا گیا جنہیں تنظیم اپنے پہلے "شہدا" قرار دیتی ہے۔
سنہ 2007 میں بی ایل اے کے اہم رہنما بالاج مری کی افغانستان کی سرحد کے قریب ہلاکت کے بعد اسلم بلوچ عرف اچھو تنظیم کے اہم رہنما کے طور پر سامنے آئے۔
اس دوران بالاج مری کے بھائی حربیار مری جو بعد میں برطانیہ میں خودساختہ جلاوطنی کی زندگی گزارنے لگے، بی ایل اے کے سربراہ بن گئے۔
ماہرین کے مطابق داخلی اختلافات کے باعث بی ایل اے چند سال قبل دو دھڑوں میں واضح طورپر تقسیم ہو گئی تھی۔ اس تقسیم کی بنیادی وجوہات قیادت، طبقاتی فرق اور عسکری حکمتِ عملی سے متعلق شدید اختلافات تھے۔
تنظیم کے فیلڈ کمانڈر اسلم بلوچ عرف نے حربیار مری سے اختلافات کے بعد اپنا الگ دھڑا قائم کر لیا اور 2016 میں خود کو بی ایل اے کے ایک حصے کا سربراہ قرار دیا۔
خیال رہے کہ دونوں دھڑے اب بھی بی ایل اے کا نام استعمال کرتے ہیں۔ تاہم بشیر زیب کے دھڑے کی کارروائیاں جیئند بلوچ جب کہ حربیار مری کے دھڑے کی کارروائیاں آزاد بلوچ کے نام سے سوشل میڈیا پر قبول کی جاتی ہیں۔
سن 2018 میں افغانستان کے شہر قندھار میں ایک خودکش حملے میں اسلم بلوچ کی ہلاکت کے بعدتنظیم کے اس دھڑے کی قیادت سابق طالب علم رہنما بشیر زیب نے سنبھال لی۔
کیا گروپ دوبارہ متحرک ہو چکا ہے؟
عسکریت پسندی پر تحقیق کرنے والے ادارے 'دی خراسان ڈائری' سے وابستہ تجزیہ کار امتیاز بلوچ کے مطابق ایک قدرے کمزور سمجھے جانے والے دھڑے کی جانب سے اچانک اس نوعیت کا بڑا حملہ ظاہر کرتا ہے کہ یہ گروپ دوبارہ متحرک ہو چکا ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ یہ گروپ اپنی کارروائیوں میں شدت کی بھی صلاحیت رکھتا ہے۔
ان کے بقول "یہ صورتِ حال بلوچستان میں عسکریت پسندی کے مستقبل اور اس کے متحرک دھڑوں کی ازسرِ نو صف بندی کے حوالے سے کئی اہم سوالات کو جنم دیتی ہے۔"
بلوچستان میں فعال مسلح تنظیموں نے جولائی 2020 میں پاکستان میں چین کے مفادات کو نشانہ بنانے کے لیے 'براس' نامی اتحاد قائم کیا تھا جس میں اللہ نذر بلوچ کی بلوچ لبریشن فرنٹ (بی ایل ایف)، بشیر زیب کی بی ایل اے، گلزار امام کی بلوچ ری پبلکن آرمی (جو بعد میں بلوچ نیشنلسٹ آرمی بنی) اور بختیار ڈومکی کی بلوچ ری پبلکن گارڈز شامل ہیں۔
بعد ازاں سندھ کی ایک مسلح تنظیم سندھو دیش ریولوشنری آرمی نے بھی اس اتحاد میں شمولیت اختیار کر لی تھی۔ تاہم بی ایل اے کا حربیار مری کا دھڑا 'براس' اتحاد کا حصہ نہیں ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ تنظیم کے اندرونی اختلافات اب بھی موجود ہیں۔
ناروے میں مقیم صحافی اور محقق کیا بلوچ کا کہنا ہے کہ بی ایل اے کے دونوں دھڑے اپنی تقسیم کے حوالے سے مختلف وجوہات پیش کرتے رہے ہیں اور یہ سلسلہ سوشل میڈیا پر بھی جاری ہے۔
ان کے بقول "ایسی مسلح تنظیموں میں اختلافات اور تقسیم معمول کا حصہ ہوتے ہیں۔"
بلوچ علیحدگی پسند تحریکوں پر تحقیق کرنے والے مکران کے ایک تجزیہ کار کے مطابق بی ایل اے کی تقسیم کا ایک بڑا سبب اسلم بلوچ کا تنظیم کی سپریم کونسل کی اجازت کے بغیر علاج کے لیے بھارت جانا تھا۔
یہ حملے کیوں انتہائی اہمیت کے حامل ہیں؟
ماہرین کا کہنا ہے کہ داخلی تقسیم اور اختلافات کے باوجود بی ایل اےکے دونوں دھڑوں کا جداگانہ طورپر پر بڑی سطح کے حملے کرنا ایک غیرمعمولی پیش رفت ہے۔
یہ نہ صرف ان دھڑوں کی عسکری صلاحیت میں اضافے کی نشاندہی کرتا ہے بلکہ بلوچستان میں شورش کی شدت میں اضافے کا بھی عندیہ دیتا ہے۔
تجزیہ کار امتیاز بلوچ کے مطابق "اب جب کہ دونوں دھڑے بڑے حملے کرنے کی اپنی صلاحیت کا مظاہرہ کرچکے ہیں، وہ اپنی حیثیت کو مستحکم کرنے اور حقیقی بی ایل اے ہونے کا دعویٰ کرنے کی کوشش کریں گے۔"
ان کے بقول "اس کا مطلب یہ ہے کہ مستقبل میں ان کے درمیان رقابت مزید بڑھ سکتی ہے جس کے نتیجے میں حملوں کی تعداد اور شدت میں مزید اضافہ متوقع ہے۔'
ماہرین کے مطابق بلوچستان میں حالیہ حملوں کو ملک کی مجموعی سیکیورٹی صورتِ حال کے تناظر میں دیکھا جائے تو یہ پاکستان کی مرکزی حکومت کے لیے ایک بڑا چیلنج بن چکے ہیں۔
صحافی و محقق کیا بلوچ کے بقول "پہلے ہی پاک افغان سرحد پر طالبان حکومت کے ساتھ کشیدگی، خیبرپختونخوا میں شدت پسندوں کے حملے اور داخلی سیاسی و معاشی بحرانوں سے نمٹنے میں مصروف حکومت کے لیے بلوچستان میں بڑھتی ہوئی عسکری سرگرمیاں مزید مسائل پیدا کر رہی ہیں۔"
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کیا بلوچ کا کہنا تھا کہ پاکستان کی مرکزی حکومت اور سیکیورٹی ادارے بلوچ عسکریت پسندی کو طویل عرصے سے ایک نچلی سطح کی شورش قرار دیتے آئے ہیں۔
لیکن قلات میں حالیہ بڑے حملے اور اس سے قبل کیے گئے دیگر حملے حکومت کے اس بیانیے کو چیلنج کر رہے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وقت کے ساتھ ان تنظیموں کی عسکری صلاحیت، افرادی قوت اور وسائل میں اضافہ ہو رہا ہے جس کے نتیجے میں حملوں کی شدت میں بھی اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔"
ایران کے لیے پریشانی کیوں؟
ماہرین کا کہنا ہے کہ بی ایل اے کے ایران مخالف سمجھے جانے والے دھڑے کے یہ حملے ایک ایسے وقت میں ہوئے ہیں جب مشرقِ وسطیٰ کی بدلتی ہوئی صورتِ حال ایران کے لیے نئے سفارتی اور سیکیورٹی چیلنجز پیدا کر رہی ہے۔
بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ خطے میں موجودہ کشیدگی اور بڑی طاقتوں کے مفادات پر اثر انداز ہونے والے عوامل کے تناظر میں یہ حملے ایران کے لیے اضافی پریشانی کا باعث بن سکتے ہیں۔
خیال رہے کہ حربیار مری نہ صرف بی ایل اے کے ایک دھڑے کے سربراہ ہیں بلکہ وہ "فری بلوچستان موومنٹ" نامی ایک سیاسی تنظیم کی قیادت بھی کرتے ہیں جو پاکستان کے ساتھ ساتھ ایران میں مقیم بلوچوں کے حقوق کے لیے زیادہ متحرک ہے۔
یہ تنظیم ایرانی حکومت کے مبینہ مظالم کے خلاف یورپ اور شمالی امریکہ میں مستقل مہم چلا رہی ہے۔
تجزیہ کار کیا بلوچ کے مطابق "بی ایل اے کے دھڑے کے حالیہ حملے کا مقام قلات ایرانی سرحد سے خاصا دور ہے۔ لیکن اس دھڑے کی ایران کے صوبہ سیستان و بلوچستان میں دلچسپی اور اثر و رسوخ کے سبب طویل المدتی تناظر میں یہ حملے تہران کے لیے مشکلات پیدا کر سکتے ہیں۔"
ان کے بقول "یہ دھڑا نہ صرف پاکستان بلکہ ایران اور افغانستان کے بلوچ علاقوں کو شامل کرتے ہوئے' گریٹر بلوچستان' کے قیام کا مطالبہ کرتا رہا ہے۔ اس کے علاوہ یہ عالمی سطح پر ایرانی بلوچوں کے خلاف تہران کے مبینہ ناروا سلوک کے خلاف یورپ بھر میں مظاہرے بھی منعقد کرتا ہے۔"
پاکستانی حکام ماضی میں متعدد بار ایران پر الزام عائد کرتے رہے ہیں کہ بشیر زیب کی قیادت میں فعال بی ایل اے کا ایک دھڑا اور اللہ نذر بلوچ کی بلوچ لبریشن فرنٹ (بی ایل ایف) مبینہ طور پر ایرانی سرحدی علاقوں میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ دونوں گروہ ایران کے خلاف براہِ راست کارروائیاں کرنے یا سخت بیانات دینے سے گریز کرتے ہیں۔
دوسری جانب ایران پاکستان پر الزام عائد کرتا ہے کہ وہ سیستان و بلوچستان میں فعال شدت پسند تنظیم جیش العدل کو اپنی سرزمین استعمال کرنے کی اجازت دے رہا ہے۔ اس تنظیم پر ایرانی سیکیورٹی فورسز پر حملوں میں ملوث ہونے کے الزامات عائد کیے جاتے ہیں جو دونوں ممالک کے تعلقات میں کشیدگی کی ایک بڑی وجہ ہے۔
گزشتہ سال جنوری میں ایران اور پاکستان نے ایک دوسرے کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کرتے ہوئے فضائی حملے کیے تھے۔ دونوں ممالک نے ان حملوں کے لیے جواز پیش کیا کہ ان کے سرحدی علاقوں میں مخالف شدت پسند تنظیمیں موجود ہیں جو وقتاً فوقتاً سرحد پار حملے کرتی ہیں اور سیکیورٹی فورسز اور حکومتی مفادات کو نشانہ بناتی ہیں۔
پاکستان اور ایران کے درمیان 904 کلومیٹر طویل سرحد ہے جس کے ایک جانب ایران کا سیستان و بلوچستان صوبہ واقع ہے جب کہ دوسری طرف پاکستان کا صوبہ بلوچستان ہے۔
دونوں خطوں میں بلوچ قبائل اکثریتی طور پر آباد ہیں اور سرحد کی وجہ سے ہزاروں خاندان تقسیم ہیں۔ روزمرہ زندگی میں سرحد کے دونوں جانب کے باشندے تجارتی اور سماجی روابط برقرار رکھتے ہیں اور مقامی سطح پر اشیا کے تبادلے کا سلسلہ بھی جاری رہتا ہے۔
تاہم اس خطے میں بڑھتی ہوئی عسکریت پسندی اور ریاستی کارروائیوں کے سبب یہ تعلقات پیچیدہ ہو رہے ہیں جس کے اثرات نہ صرف پاکستان اور ایران بلکہ پورے خطے پر مرتب ہو سکتے ہیں۔
فورم