رسائی کے لنکس

ملک ریاض پر 10 سال بعد بحریہ ٹاؤن کراچی کی زمینوں میں بدعنوانی پر ریفرنس


  • کراچی کی احتساب عدالت میں نیب کی جانب سے فائل کردہ ریفرنس میں ملک ریاض اور ان کے صاحبزادے سمیت 33 ملزمان شامل ہیں۔
  • ملزمان پر غیر قانونی طوریقے سے بحریہ ٹاؤن کراچی کے لیے زمین پر قبضہ کرکے قومی خزانے کو 700 ارب روپے سے زائد کا نقصان پہنچانے کا الزام ہے۔
  • عدالت نے ریفرنس سماعت کے لیے منظور کرتے ہوئے ملزمان کو نوٹس جاری کردیے ہیں۔
  • ملک ریاض نے الزام عائد کیا ہے کہ انہیں گواہی کے لیے بلیک میل کیا جارہا ہے۔
  • شواہد موجود ہیں کہ ملک ریاض اور ان کے ساتھیوں نے بحریہ ٹاؤن کے نام پر کراچی، تخت پڑی راولپنڈی اور نیو مری میں سرکاری بلکہ نجی اراضی پر بغیر این او سی قبضہ کیا، نیب

کراچی _ پاکستان کے قومی احتساب بیورو (نیب)نے بحریہ ٹاؤن کے مالک ملک ریاض، ان کے صاحبزادے، سابق وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ اور دیگر 30 افراد کے خلاف قومی خزانے کو نقصان پہنچانے کے الزام میں ریفرنس دائر کردیا ہے۔

ملزمان پر الزام ہے کہ انہوں نے غیر قانونی طریقے سے بحریہ ٹاؤن کراچی کے لیے زمین پر قبضہ کرکے قومی خزانے کو 700 ارب روپے سے زائد کا نقصان پہنچایا ہے۔

چئیرمین نیب لیفٹننٹ جنرل ریٹائرڈ نذیر احمد کی منظوری اور دستخط کے بعد کراچی کی نیب عدالت میں ہفتے کو یہ ریفرنس جمع کیا گیا ہے۔ عدالت نے ریفرنس سماعت کے لیے منظور کرتے ہوئے ملزمان کو نوٹس بھی جاری کردیے ہیں۔

ملک ریاض کے خلاف بحریہ ٹاؤن کراچی کی زمین غیر قانونی طور پر حاصل کرنے کی انکوائری 2015 کے آخر میں شروع کی گئی تھی جسے بعد ازاں انویسٹی گیشن میں تبدیل کردیا گیا تھا۔

دس سال بعد اس ریفرنس کو ایسے وقت میں عدالت میں داخل کیا گیا ہے جب خود ملک ریاض کی جانب سے الزام عائد کیا جارہا ہے کہ انہیں گواہی کے لیے بلیک میل کیا جارہا ہے۔

دوسری جانب حکومتی ادارے الزام عائد کررہے ہیں کہ ملک ریاض کے دبئی میں شروع ہونے والے نئے پراجیکٹ کے لیے رقم منی لانڈرنگ کے ذریعے منتقل کی گئی ہے۔

ریفرنس میں کیا ہے؟

نیب کی جانب سے فائل کردہ ریفرنس میں ملک ریاض اور ان کے صاحبزادے سمیت 33 ملزمان شامل ہیں جن میں سابق وزیرِ اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ، اُس وقت کے وزیر بلدیات اور موجودہ وزیر اطلاعات شرجیل انعام میمن اور متعدد سرکاری افسران کے نام ہیں۔

ریفرنس میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ ملزمان نے مختلف قوانین اور سپریم کورٹ کے حکم کی خلاف ورزی کرتے ہوئے غیر قانونی طور پر زمین بحریہ ٹاؤن کراچی کے نام منتقل کی۔

نیب ریفرنس کے مطابق بحریہ ٹاؤن کے نام زمین کی منتقلی کے لیے راہ ہموار کرنے کے لیے سب سے پہلے2013 میں سندھ اسمبلی سے ملیر ڈویلپمنٹ اتھارٹی ایکٹ میں ترمیم کرکے قانون منظور کروایا گیا جس کے چھ روز بعد ہی بحریہ ٹاؤن نے ضلع ملیر میں ہاؤسنگ پراجیکٹ بنانے کا اعلان کیا۔

اسی سال نومبر میں حکومت سندھ نے ملیر کے 43 دیہات میں سروے کرنے اور رہائش کے لیے قابلِ استعمال بنانے کی غرض سے کام کا آغاز کرنے کی سمری منظور کی۔

نیب کا کہنا ہے کہ سابق وزیرِ بلدیات شرجیل انعام میمن نے سمری منظور کرنے کی غیر قانونی طور پر سفارش کی جسے اُس وقت کے وزیر اعلیٰ سید قائم علی شاہ نے قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے منظور کیا۔

اس عمل کے بعد سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے مفرور سابق ڈائریکٹر جنرل منظور قادر کی جانب سے بحریہ ٹاؤن کراچی میں بکنگ کی غیر قانونی اور خلاف ضابطہ اجازت دی گئی۔

بحریہ ٹاؤن کی اراضی سے متعلق سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی ایک رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ بحریہ ٹاؤن نے الاٹ کردہ 16 ہزار 986 ایکڑ زمین کے بجائے 19 ہزار 931 ایکڑ زمین پر تعمیرات کیں۔

بحریہ ٹاؤن پر جرمانہ

سپریم کورٹ نے قرار دیا تھا کہ اس معاملے میں پوری حکومتی مشینری نے بحریہ ٹاؤن کی جانب سے غیرقانونی فوائد جمع کرنے میں کردار ادا کیا۔

سپریم کورٹ میں بحریہ ٹاؤن کی اراضی کےمقدمے میں عدالت نے فیصلہ سناتے ہوئے نومبر 2023 تک بحریہ ٹاوؑن کو 460 ارب روپے جرمانہ ادا کرنے کا حکم دیا تھا جو سپریم کورٹ میں جمع کرایا جانا تھا۔

اس کیس کے مطابق بحریہ ٹاؤن کو ہر سال 166 ارب 25 کروڑ روپے جمع کرانے تھے لیکن بحریہ ٹاؤن کی جانب سے اس اکاؤنٹ میں محض 24 ارب 26 کروڑ روپے جمع کرائے گئے۔ بقیہ رقم جمع نہ کرانے پر بحریہ ٹاؤن سپریم کورٹ کے ان احکامات کی خلاف ورزی کا بھی مرتکب ہوا ہے۔

ریفرنس میں کہا گیا ہے کہ ملک ریاض، احمد علی ریاض، زین ملک نے قوانین کے برخلاف 17 ہزار 671 ایکڑ زمین بحریہ ٹاون کے نام ٹرانسفر کرائی۔ اس طرح یہ ملزمان1820 ارب پاکستانی روپے، تین کروڑ 11 لاکھ امریکی ڈالرز، 23 لاکھ برطانوی پاونڈز اور 79 ہزار سے زائد یورو اپنے اکاؤنٹس میں اکھٹا کرنے میں کامیاب ہوئے۔

نیب کے مطابق سابق وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے ملزمان کے ساتھ گٹھ جوڑ کیا اور اس سمری کو منظور نہ کیا جس میں بحریہ ٹاون کو حاصل شدہ زمین کو کینسل کیا جانا تھا۔

اس وقت کے وزیر بلدیات شرجیل انعام میمن پر بھی الزام ہے کہ انہوں نےبحریہ ٹاؤن کی غیر قانونی منظوری دی، لے آوٹ پلان منظور کرایا اور قومی خزانے کو نقصان پہنچایا۔

نیب کا کہنا ہے کہ ملزمان نے سپریم کورٹ کے حکم پر 460 ارب روپے جمع کرانے ہیں، اسی طرح تاخیر سے ادائیگی کی صورت میں مزید 235 ارب روپے اور غیرقانونی طور پر حکومتی زمین ہتھیانے کے الزام میں مزید 37 ارب روپے کی رقم قومی خزانے میں جمع کرانی ہے۔

ملک ریاض کا کیا کہنا ہے؟

بیرونِ ملک مقیم ملک ریاض نے حال ہی میں الزام عائد کیا تھا کہ انہیں حکومت کی جانب سے بلیک میل کیا جارہا ہے۔

بائیس جنوری کو سوشل میڈیا پر جاری ایک بیان میں ملک ریاض نے نیب کی اس پریس ریلیز کو بلیک میلنگ قرار دیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ نیب کے پاس اس وقت بحریہ ٹاؤن کے مالک اور دیگر افراد کے خلاف دھوکہ دہی اور فراڈ کے کئی مقدمات زیر تفتیش ہیں۔

ملک ریاض نے اپنے بیان میں مزید کہا تھا کہ وہ ضبط سے کام لے رہے ہین لیکن ان کے دل میں ایک طوفان ہے۔ اگر یہ بند ٹوٹ گیا تو پھر سب کا بھرم ٹوٹ جائے گا۔

تاہم نیب کے مطابق ادارے کے پاس اس بات کے مضبوط شواہد موجود ہیں کہ ملک ریاض اور ان کے ساتھیوں نے بحریہ ٹاؤن کے نام پر کراچی، تخت پڑی راولپنڈی اور نیو مری میں سرکاری بلکہ نجی اراضی پر بغیر این او سی قبضہ کیا۔

نیب نے الزام عائد کیا ہے کہ ملک ریاض نے بغیر اجازت نامے کے ہاؤسنگ سوسائٹیز قائم کرتے ہوئے لوگوں سے اربوں روپے کا فراڈ کیا ہے۔

ترجمان نیب کے مطابق ملک ریاض نے بحریہ ٹاؤن کے نام پر پشاور اور جام شورو میں بھی زمینوں پر ناجائز قبضے کر کے اور بغیر این او سی کے ہاؤسنگ سوسائٹیز قائم کیں ہیں۔ جب کہ نیب بحریہ ٹاؤن کے پاکستان کے اندر بے شمار اثاثے پہلے ہی ضبط کر چکا ہے۔ ملک ریاض اس وقت عدالتی مفرور کی حیثیت سے دبئی میں مقیم ہیں۔

کئی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ملک ریاض کے خلاف ان کارروائیوں کا آغاز اس وقت کیا گیا جب سابق وزیر اعظم عمران خان کے خلاف القادر ٹرسٹ کیس میں مبینہ طور پر ملک ریاض نے عمران خان کے خلاف گواہی دینے سے انکار کیا تھا۔

حکومت کا کہنا ہے کہ اس کیس کا تعلق 190 ملین پاؤنڈ کی اس رقم سے ہے جو برطانیہ نے سال2019 میں ملک ریاض سے منی لانڈرنگ کے الزام میں برآمد کرکے پاکستان واپس بھجوائی تھی۔ تاہم اس رقم کو پاکستان کے قومی خزانے میں ڈالنے کے بجائے سابق وزیر اعظم کی حکومت نے یہ رقم سپریم کورٹ کی جانب سے بطور جرمانہ عائد کی گئی رقم کے طور پر قبول کیا گیا جو عدالت نے ملک ریاض کو بحریہ ٹاؤن کراچی کے لیے زمینوں کی خریداری میں ہیرا پھیری پر ادا کرنے کا حکم دیا تھا۔

اگرچہ عدالت نے القادر ٹرسٹ کیس یا 190 ملین پاؤنڈ کیس میں عمران خان کو 14 سال اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کو سات سال قید کی سزا سنائی ہے۔تاہم اس کیس میں حیرت انگیز طور پر ملک ریاض کو ملزم بنایا گیا اور نہ ہی کوئی سزا دی گئی۔

  • 16x9 Image

    محمد ثاقب

    محمد ثاقب 2007 سے صحافت سے منسلک ہیں اور 2017 سے وائس آف امریکہ کے کراچی میں رپورٹر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ وہ کئی دیگر ٹی وی چینلز اور غیر ملکی میڈیا کے لیے بھی کام کرچکے ہیں۔ ان کی دلچسپی کے شعبے سیاست، معیشت اور معاشرتی تفرقات ہیں۔ محمد ثاقب وائس آف امریکہ کے لیے ایک ٹی وی شو کی میزبانی بھی کر چکے ہیں۔

فورم

XS
SM
MD
LG