رسائی کے لنکس

برطانیہ: امیگریشن سے آبادی میں اضافہ، بھارتی اور پاکستانی تارکین وطن کی تعداد بڑھ گئی


بھارت، نائیجیریا اور پاکستان سے آنے والے تارکین وطن کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ان ملکوں سے آنے والے افراد اکثر صحت عامہ اور سوشل کیئر  کے شعبوں میں خدمات انجام دیتے ہیں۔
بھارت، نائیجیریا اور پاکستان سے آنے والے تارکین وطن کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ان ملکوں سے آنے والے افراد اکثر صحت عامہ اور سوشل کیئر  کے شعبوں میں خدمات انجام دیتے ہیں۔

  • برطانیہ کی آبادی سال 2032 تک بڑھ کر 7 کروڑ 25 لاکھ ہو جائے گی۔
  • برطانیہ کے قومی شماریات کے دفتر ، او این ایس، نے منگل کو بتایا کہ سال 2022 میں برطانیہ کی کل آبادی چھ کروڑ 76 لاکھ تھی۔
  • بھارت، نائیجیریا اور پاکستان سے آنے والے تارکین وطن کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔
  • ان ملکوں سے آنے والے افراد اکثر صحت عامہ اور سماجی دیکھ بھال کے شعبوں میں خدمات انجام دیتے ہیں۔
  • آبادی کے تخمینوں سےملکی معیشت کو چلانے کے لیے غیر ملکی کارکنوں کی ضرورت پر بھی بحث زور پکڑے گی۔

برطانیہ کی آبادی سال 2032 تک بڑھ کر 7 کروڑ اور 25 لاکھ ہو جائے گی جبکہ حالیہ برسوں میں ریکارڈ سطح پر ہونے والی امیگریشن کو آبادی میں اس اضافے کی ایک بڑی وجہ قرار دیا جا رہا ہے۔

ملک کے دفتر برائے قومی شماریات، او این ایس، نے منگل کو بتایا کہ سال 2022 میں برطانیہ کی کل آبادی چھ کروڑ 76 لاکھ تھی۔

خبر رساں ادارے "رائٹرز" نے برطانیہ میں حالیہ برسوں میں امیگریشن کی ریکارڈ سطح کے حوالے سے ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ تازہ ترین شمار کے اندازوں سے ملک میں یہ بحث جنم لے گی کہ آیا ملک کے عوامی خدمات کی ادارے اس اضافےسے نمٹ پائیں گے۔

ساتھ ہی ملکی معیشت کو چلانے کے لیے غیر ملکی کارکنوں کی ضرورت پر بھی بحث بھی زور پکڑے گی۔

واضح رہے کہ برطانیہ کے 2016 میں یورپی یونین سے نکلنے کے فیصلے کے بعد ویزوں میں تبدیلی کے باعث یورپی ملکوں سے آنے والے تارکین وطن میں نمایاں کمی دیکھی گئی ہے۔

دوسری طرف ویزے جاری کرنے کے نئے ضوابط کی وجہ سے بھارت، نائیجیریا اور پاکستان سے آنے والے تارکین وطن کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔

ان ملکوں سے آنے والے افراد اکثر صحت عامہ اور سماجی دیکھ بھال کے شعبوں میں خدمات انجام دیتے ہیں۔

وزیر اعظم کیر اسٹارمر کی لیبر حکومت سمیت برطانوی حکومتیں تسلسل کے ساتھ امیگریشن کی سطح کو کم کرنے کے عزم کا اظہار کرتی آرہی ہیں ۔

برطانیہ میں امیگریشن ایک گرما گرم سیاسی موضوع رہا ہےجس نے 2016 میں "بریگزٹ" یعنی یورپی یونین سے علیحدہ ہونے کے ووٹ کو آگے بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔

امیگریشن کا مسئلہ دائیں بازو کی "ریفارم یو کے" پارٹی کے عروج کا محرک بھی بنا ہے۔

او این ایس کے مطابق 2022 سے 2032 تک کے دس برسوں میں کل 49 لاکھ تارکین وطن کا اضافہ ہو گا ۔

تھنک ٹینک "ریزولوشن فاؤنڈیشن" کے مطابق آبادی کے تازہ ترین تخمینے وزیر خزانہ ریچل ریوز کے لیے خوش آئند خبر ہوں گے۔

تھنک ٹینک نے کہا ہے کہ آبادی کے یہ تخمینے وزیر خزانہ کی جانب سے برطانیہ کی معیشت کی پیشن گوئی کرتے وقت اس کے سائز کو بڑھانے میں مدد گار ثابت ہونگے اور نتیجتاً حکومت کو کم قرض لینا پڑے گا۔

ایک بیان میں فاؤنڈیشن کے اعلیٰ ترین ماہر اقتصادیات ایڈم کورلیٹ نے کہا، "کام کرنے والی عمر کی ایک بڑی آبادی کا مطلب ایک بڑی معیشت، زیادہ کارکن، اور زیادہ ٹیکس وصولیاں ہیں، جس سے دہائی کے آخر تک تقریباً 5 ارب پاؤنڈ سالانہ کا مالی اضافہ ہونا چاہیے۔"

تخمینوں کے مطابق برطانیہ میں 2022 اور 2032کے دوران پیدائش اور اموات کی تعداد یکساں ہونے کا امکان ہے۔

ان دس برسوں میں اگرچہ پیدائشوں میں قدرے اضافے کا اندازہ لگایا گیا ہے لیکن 1945 کے بعد دو دہائیوں میں پیدا ہونے والے لوگوں کی بڑی تعداد کے بوڑھے ہونے کی وجہ سے اموات میں بھی اضافہ متوقع ہے۔

2028 کے وسط میں ختم ہونے والے سال کے بعد مجموعی طور پر سالانہ 3 لاکھ 40 ہزار تارکین وطن کی نقل مکانی متوقع ہے۔

جون 2023 میں ہجرت کی مجموعی تعداد 9 لاکھ رہی جو کہ ایک ریکارڈ ہے۔

(اس خبر میں شامل معلومات رائٹرز سے لی گئی ہیں)

فورم

XS
SM
MD
LG