|
ویب ڈیسک —امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ وائٹ ہاؤس میں ہونے والی تلخی کے بعد پیدا ہونے والی صورتِ حال میں یورپی ممالک کے رہنما یوکرین سے سیکیورٹی تعاون بڑھانے کے لیے لندن پہنچ رہے ہیں۔
وائٹ ہاؤ س سے نکلنے کے بعد یوکرین کے صدر ولودمیر زیلنسکی ہفتے کو لندن پہنچے جہاں ان کا پرتباک استقبال کیا گیا۔
برطانوی وزیرِ اعظم کیئر اسٹارمر سے ملاقات میں کیمروں کے سامنے زیلنسکی نے ان سے دو بار معانقہ کیا اور گزشتہ تین برس کے دوران روس کے حملوں سے کمزور ہوتے دفاع کو مضبوط کرنے کے لیے قرض بھی حاصل کیا۔
اس موقعے پر صدر زیلنسکی نے جنگ میں حمایت پر برطانیہ کے عوام اور حکومت کا شکریہ ادا کیا۔
لندن میں یوکرین کے یورپی اتحادیوں کی سیکیورٹی سمٹ میں شرکت سے قبل صدر زیلنسکی کی برطانوی فرماں رواں شاہ چارلس سوم سے ملاقات بھی متوقع ہے۔
اس اجلاس میں فرانس، جرمنی، ڈنمارک، اٹلی اور ترکیہ سمیت پورے یورپ سے رہنما شریک ہو رہے ہیں۔ اجلاس میں نیٹو اور یورپی یونین کے نمائندے بھی شرکت کر رہے ہیں۔
اتوار کو برطانیہ کے وزیرِ اعظم کے دفتر سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق اجلاس میں مستقل امن کے لیے طویل المیعاد معاہدے پر زور دیا جائے گا اور یوکرین کے لیے ٹھوس سیکیورٹی یقین دہانیوں کے لیے اگلے مراحل پر بات چیت ہوگی۔
خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق نیٹو میں خدشات پائے جاتے ہیں کہ امریکہ اس کی مدد جاری رکھے گا یا نہیں۔ اس لیے لندن میں ہونے والے اجلاس میں یورپی ممالک میں دفاعی تعاون بڑھانے کی ضرورت پر بھی گفتگو ہوگی۔
لندن میں خیر مقدم
ہفتے کو لندن پہنچنے پر صدر زیلنسکی کے حامیوں نے بھی ان کا خیر مقدم کیا۔ بعدازاں برطانوی وزیرِ اعظم سے ان کی 75 منٹ پر محیط بند کمرہ ملاقات ہوئی۔
زیلنسکی کے دفتر سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق ملاقات میں دونوں رہنماؤں نے جنگ کے خاتمے سے متعلق یوکرین کے موقف پر تبادلۂ خیال کیا جس میں ’’دیر پا امن اور روس کو جنگ بندی کے نام پر دوبارہ حملے کے لیے تیاری کی مہلت نہ دینے‘‘ پر زور دیا گیا ہے۔
ملاقات میں دو ارب 84 کروڑ ڈالر قرض معاہدے کا اعلان بھی ہوا جو یوکرین کی دفاعی صلاحیتوں کے لیے فراہم کیا جائے گا۔
یہ قرض روس کے اثاثوں پر حاصل ہونے والے منافع سے ادا کیا جائے گا۔
لندن پہنچنے سے قبل صدر زیلنسکی کی اوول آفس میں صدر ٹرمپ اور نائب صدر جے ڈی وینس کے ساتھ ملاقات ہوئی تھی جس میں ان رہنماؤں کے درمیان تلخی پیدا ہوگئی تھی اور اس دوران ہونے والی بحث براہ راست ٹی وی پر نشر ہوئی۔
صدر ٹرمپ اور ان کے نائب جے ڈی وینس کا کہنا تھا کہ زیلنسکی امریکہ کے تعاون پر شکر گزار نہیں ہیں اور روس کے ساتھ جنگ بندی کے لیے ان کی تجاویز تسلیم کرنے سے انکاری ہیں۔
زیلنسکی سے معافی مانگنے کا مطالبہ
امریکہ کے وزیرِ خارجہ مارکو روبیو نے اوول آفس میں ہونے والی تلخی پر صدر زیلنسکی سے معافی مانگنے کا مطالبہ کیا ہے۔
اس ملاقات کے بعد اپنے پہلے ردِ عمل میں صدر ٹرمپ نے ٹرتھ سوشل پر اپنی پوسٹ میں کہا ہے کہ زیلنسکی امن کے لیے تیار نہیں ہیں۔ جب وہ امن کے لیے تیار ہوں تو واپس آ سکتے ہیں۔
زیلنسکی نے وائٹ ہاؤس میں ہونے والی تلخی پر معافی ماننے سے انکار کیا۔ تاہم ان کا کہنا ہے وہ یوکرین کی معدنیات سے متعلق ٹرمپ کے مجوزہ معاہدے پر دستخط کے لیے تیار ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہا اس سخت مکالمے کے باوجود یوکرین اور امریکہ اسٹریٹجک پارٹنر رہیں گے۔
ایکس پر اپنی پوسٹ میں زیلنسکی کا کہنا تھا کہ اس کے لیے ہمیں دیانت داری سے ایک دوسرے کے مشترکہ مقاصد کو سمجھنا ہوگا۔
اس رپورٹ میں شامل بعض معلومات خبر رساں ادارے اے ایف پی سے لی گئی ہیں۔