رسائی کے لنکس

نماز جمعہ کی ادائیگی؛ سیالکوٹ میں احمدی کمیونٹی کے 22 افراد گرفتار


  • سیالکوٹ کے علاقے ڈسکہ میں درج کی گئی ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ احمدی کمیونٹی کے افراد نمازِ جمعہ کی نیت سے اپنی عبادت گاہ میں بیٹھے تھے۔
  • ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ پاکستانی قوانین کے مطابق احمدیوں کو اسلامی شعائر اپنانے کی اجازت نہیں ہے۔
  • پولیس نے توہینِ مذہب قانون کی دفعہ 298سی کے تحت مقدمہ درج کر کے 22 افراد کو گرفتار کر لیا ہے۔

لاہور -- پاکستان کے صوبۂ پنجاب کے شہر سیالکوٹ کی پولیس نے جمعے کی نماز کی ادائیگی پر احمدی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے 22 افراد کو گرفتار کر لیا ہے۔

ڈسکہ کے رہائشی حمزہ آصف بٹ نے تھانے میں درخواست دائر کی تھی کہ احمدی کمیونٹی کے افراد نے جمعے کی نماز ادا کی، حالاں کہ آئینِ پاکستان کے مطابق اُنہیں اس کی اجازت نہیں ہے۔

پولیس نے توہینِ مذہب قانون کی دفعہ 298سی کے تحت مقدمہ درج کر کے 22 افراد کو گرفتار کر لیا ہے۔

مقدمے کے مطابق احمدی کمیونٹی کے 25 افراد اپنی عبادت گاہ میں جمعے کی نماز کی نیت سے بیٹھے تھے جس میں ایک شخص عربی میں خطبہ دے رہا تھا۔ ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ پاکستانی قوانین کے مطابق احمدیوں کو اسلامی شعائر اپنانے کی اجازت نہیں ہے۔

خیال رہے کہ احمدی خود کو مسلمان کہتے ہیں، تاہم پاکستان کا آئین انہیں غیر مسلم قرار دیتا ہے۔

مقدمہ کے تفتیشی اسسٹنٹ سب انسپکٹر پولیس تھانہ ڈسکہ سٹی محمد تنزیل انور بریار کے مطابق احمدی قوانین کے مطابق نمازِ جمعہ کی ادائیگی نہیں کر سکتے اور یہ مقدمہ میرٹ پر درج کیا گیا ہے۔ گرفتار کیے گئے افراد میں ایک 11 سالہ لڑکا بھی تھا جسے بعد ازاں چھوڑ دیا گیا۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ احمدی اپنی عبادت گاہ میں اکٹھے تھے اور وہ وہاں اسلامی شعائر کا استعمال نہیں کر سکتے۔

فائل فوٹو
فائل فوٹو

اُن کا کہنا تھا کہ کوئی بھی احمدی اسلام کا کوئی رکن ادا نہیں کر سکتا۔ اُن کے بقول قانون کی خلاف ورزی پر احمدیوں کے خلاف مقدمہ درج کر کے اُنہیں گرفتار کیا گیا ہے۔

واضح رہے کہ یہ وہی عبادت گاہ ہے جسے رواں سال 16 جنوری کو مسمار کر دیا گیا تھا۔ اس عبادت گاہ کا اب صرف ایک کمرہ باقی رہ گیا تھا۔

جماعت احمدیہ پاکستان کے مطابق یہ ایک تاریخی عبادت گاہ تھی جسے پاکستان کے پہلے وزیرِ خارجہ چوہدری سر محمد ظفراللہ نے قیامِ پاکستان سے قبل تعمیر کرایا تھا۔

اسی نوعیت کا ایک اور واقعہ ضلع سرگودھا میں پیش آیا ، جہاں پولیس نے مذہبی رسومات کی ادائیگی کرنے والے 23 احمدیوں کے خلاف مقدمہ درج کر لیا ، تاہم کسی کی گرفتاری عمل میں نہیں لائی گئی۔

پاکستان میں جماعتِ احمدیہ کے ترجمان عامر محمود کہتے ہیں کہ احمدیوں کو مذہبی فرائض کی ادائیگی سے روکنا انسانی حقوق کے عالمی منشور اور آئین پاکستان کی سنگین خلاف ورزی ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ احمدیوں کی عبادت گاہوں ،قبروں کی مسلسل بے حرمتی اور احمدیوں کے خلاف بے بنیاد مقدمات سے ملک کا نام عالمی برادری میں خراب ہو رہا ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ وہ پاکستان میں احمدیوں کے خلاف بڑھتی ہوئی نفرت انگیز ی اور سرکاری حکام کی جانب سے مذہبی انتہا پسندوں کے دباؤ پر محب وطن احمدیوں کے خلاف بے بنیاد مقدمات اور گرفتاریوں کی مذمت کرتے ہیں۔

دوسری جانب پاکستان علما کونسل کے چیئرمین حافظ طاہر اشرفی کا کہنا ہے کہ پاکستان کا آئین، قانون اور مذہب اسلام اِس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ غیر مسلم اسلامی شعائر کا استعمال کریں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ آئین میں واضح ہے کہ احمدیوں کو پاکستان کے آئین اور قانون کی پابندی کرنا ہو گی۔

ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے احمدیوں کو کئی مرتبہ دعوت دی ہے کہ وہ وزارتِ داخلہ کے تحت اپنی عبادت گاہوں کے نقشے اور دیگر چیزیں ایک ضابطے میں لائیں۔

ترجمان جماعت احمدیہ عامر محمود کے مطابق رواں سال اب تک چھ مختلف واقعات میں 91 احمدیوں کی قبروں کی بے حرمتی کی گئی ہے جب کہ پانچ احمدی عبادت گاہوں کے مینار اور محراب مسمار کیے گئے ہیں۔

پاکستان میں انسانی حقوق کی تنظیم 'ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان' احمدی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے افراد کے خلاف کارروائی پر تشویش کا اظہار کرتی رہی ہے۔

فورم

XS
SM
MD
LG