میانمار میں ہزاروں مظاہرین نے ملک میں مارشل لا نافذ کرنے اور آنگ سان سوچی کی گرفتاری کے خلاف اتوار کو دوسرے روز بھی پورے ملک میں مظاہرے کیے۔
انٹرنیٹ اور فون لائنز کی بندش کے باوجود ملک بھر میں یہ مظاہرے 2007 کے بعد سب سے بڑے مظاہرے قرار دیے جا رہے ہیں۔
خیال رہے کہ 2007 میں فوجی حکومت کی جانب سے تیل کی قیمتوں میں سبسڈی کے خاتمے کے بعد حکومت مخالف مظاہروں کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا جس میں ہزاروں افراد شریک ہوئے تھے۔
'سیفرون انقلاب' کے عنوان سے ہونے والے ان مظاہروں کے بعد تجزیہ کاروں کے بقول فوجی حکومت کے خاتمے کی راہ ہموار ہوئی تھی۔
خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق اتوار کو میانمار کے شہر ینگون میں ہزاروں مظاہرین جمع ہوئے۔ مظاہرین نے سرخ پرچم اور بینرز اُٹھا رکھے تھے۔
آنگ سان سوچی کی جماعت نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی پارٹی (این ایل ڈی) کے کارکنوں کی بڑی تعداد بھی مظاہرے میں شریک تھے۔ مظاہرین فوج کے خلاف اور جمہوریت کی بحالی کے لیے نعرے لگا رہے تھے۔
خیال رہے کہ میانمار کی فوج نے ملک کی سربراہ اور نوبیل انعام یافتہ آنگ سان سوچی اور اُن کی جماعت کے دیگر رہنماؤں کو تحویل میں لیتے ہوئے رواں ہفتے پیر کو اقتدار پر قبضہ کر لیا تھا۔
اس سے پہلے ہفتے کو بھی ہزاروں مظاہرین نے مارشل لا کے خلاف سڑکوں پر احتجاج کیا تھا۔
ینگون شہر میں اتوار کی صبح مظاہرین ہلیدن ٹاؤن شپ میں اکٹھے ہوئے اور ٹریفک کے درمیان چلتے ہوئے مظاہرین نے فوجی بغاوت کے خلاف احتجاج کیا۔
'این ایل ڈی' کے جھنڈے تھامے مظاہرین تین انگلیوں کے اشاروں سے سلیوٹ پیش کر رہے تھے جو فوجی بغاوت کے خلاف ایک سلوگن سمجھا جا رہا ہے۔
اس موقع پر ڈرائیورز نے ہارنز بجا کر احتجاج میں حصہ لیا جب کہ مسافروں کے ہاتھوں میں آنگ سان سوچی کی تصاویر بھی تھیں۔
ملک بھر میں جاری مظاہروں سے متعلق فوج کی طرف سے کوئی مؤقف سامنے نہیں آیا۔
میانمار میں تعینات اقوامِ متحدہ کے خصوصی نمائندے تھامس اینڈریوز کا کہنا ہے کہ فوجی بغاوت کے بعد سے اب تک 160 سے زائد افراد کو حراست میں لیا گیا ہے۔
تھامس کا مزید کہنا تھا کہ فوجی جنرلز اب شہریوں کی مزاحمتی تحریک کو دبانے کی کوششوں میں ہیں اور انٹرنیٹ پر پابندی لگا کر وہ دنیا کو ان مظاہروں سے متعلق اندھیرے میں رکھنا چاہتے ہیں۔
ان کے بقول ایسی صورت حال میں ہم سب کو میانمار کے لوگوں کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے۔