میانمار کی فوجی حکومت نے ملک میں فیس بک اکاؤنٹس کو بند کر دیا ہے جب کہ فوج کے اقتدار پر قبضہ کرنے کے خلاف مزاحمت شدت اختیار کرتی جا رہی ہے۔ جمعے کے روز ینگون میں سینکڑوں مظاہرین نے اقتدار پر فوج کے قبضے کے خلاف احتجاج کیا۔
پیر کے روز فوج کی بغاوت کے بعد سے یہ میانمار میں ہونے والا سب سے بڑا عوامی مظاہرہ ہے۔
اس احتجاج میں یورنیورسٹی آف ینگون اور شہر کے سرگرم کارکنوں نے حصہ لیا اور فوج سے مطالبہ کیا کہ وہ اقتدار عوام کے منتخب نمائندوں کو سونپ کر واپس چلے جائیں۔ دوسری جانب فوجی عہدے دار پکڑ دھکڑ کی اپنی کارروائیوں میں اضافہ کر رہے ہیں۔
میانمار کی وزارت مواصلات نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ ملک میں استحکام برقرار رکھنے کیلئے فیس بک کو اتوار تک کیلئے بند کر دیا گیا ہے۔
ملک کی کلیدی موبائل نیٹ ورک کمپنی نے فیس بک بند کیے جانے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس کے خیال میں یہ اقدام بلا جواز اور انسانی حقوق کے بین الاقوامی قانون کے خلاف ہے۔
کمپنی نے میانمار کی فوجی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ سماجی رابطے کی سہولت کو فوراً بحال کیا جائے تاکہ لوگ اپنے خاندان اور دوستوں کے ساتھ رابطہ رکھ سکیں۔
فیس بک، میانمار میں سب سے زیادہ مقبول سوشل میڈیا پلیٹ فارم ہے، جسے شہری اور فوجی عہدیدار یکساں طور پر استعمال کرتے ہیں۔ فوج کی طرف سے اقتدار پر قبضہ کیے جانے کے بعد مشتعل شہری فیس بک پر مظاہروں کی تصاویر اور ویڈیو پوسٹ کرتے رہے ہیں۔ احتجاجی مظاہرین ینگون اور دیگر شہروں میں سڑکوں پر بڑی تعداد میں آ کر گاڑیوں کے ہارن بجاتے ہوئے فوجی بغاوت کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے جمعرات کے روز ایک مشترکہ بیان میں میانمار کی صورت حال پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے لیڈر آنگ ساں سو چی، صدر وِن مینٹ اور دیگر گرفتار شدہ افراد کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا۔
سلامتی کونسل کی صدر برطانیہ کی سفیر باربرا ووڈورڈ نے مشترکہ بیان پڑھتے ہوئے کہا کہ سلامتی کونسل میانمار میں جمہوری اداروں اور جمہوری عمل کو بحال کرنے کا مطالبہ کرتی ہے اور ملک کے شہریوں کے انسانی حقوق، بنیادی آزادی اور قانون کی حکمرانی کی مکمل حمایت کا اظہار کرتی ہے۔
امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے بھی کہا ہے کہ میانمار میں ابھرنے والی صورت حال پر امریکہ کو تشویش ہے ۔ ترجمان نے فوجی حکمرانوں سےگرفتار شدہ افراد کو فوری رہا کرنے کا مطالبہ کیا۔