میانمار میں نصف صدی بعد سن 2015 کے انتخابات میں زبردست فتح حاصل کر کے پہلی سویلین حکومت قائم کرنے والی 75 سالہ آنگ ساں سوچی کے بارے میں چند حقائق:۔
1988: اپنی بیمار ماں کی دیکھ بھال کیلئے اس وقت کے دارالحکومت رنگون واپس آئیں۔ تب ہی اچانک ملک میں 1962 سے قائم فوجی حکومت کے خلاف طلبہ قیادت میں ملک گِیر ہنگامےشروع ہو گئے جس میں انہیں شامل ہونا پڑا۔
1991: انہیں نوبل کا امن انعام دیا گیا، جسے ان کے بڑے بیٹے الیگزینڈر نے وصول کیا۔
2011:اس وقت کے ملک کے صدر تھین سین سے پہلی ملاقات ہوئی جو کہ ایک سابق جرنیل تھے اور ایک نیم سویلین انتظامیہ کے سربراہ تھے۔ یوں سابق فوجیوں پر مشتمل حکومت کے ساتھ ان کی ایک نتیجہ خیز بات چیت کا آغاز ہوا۔
2015: اقتدار میں آئیں جس سے خانہ جنگی کا خاتمہ ہوا، غیر ملکی سرمایہ کاری میں اضافہ ہوا، اور ملکی سیاست میں فوجی عمل دخل کم ہوا۔ انہوں نے مغربی اتحادیوں سے وعدہ کیا کہ وہ ملک میں آباد روہنگیا مسلمان آبادی کے مسائل کو حل کریں گی۔
2017: صوبہ راکھین میں روہنگیا عسکریت پسندوں نے اگست میں سیکیورٹی فورسز پر حملہ کیا۔ جواب میں فوج نے سینکڑوں گاؤں جلا دیے اور خاصی تعداد میں روہنگیا افراد مارے گئے۔ آنگ ساں سوچی نے اس کا الزام دہشت گردوں پر عائد کیا جو بقول ان کے غلط معلومات پھیلا رہے تھے اور فوج قانون کی حکمرانی کیلئے کاروائی کر رہی تھی۔
2019: میانمار پر روہنگیا افراد کی نسل کشی کے الزامات کا سامنا کرنے کیلئے وہ ہیگ میں قائم انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس ایٹ دی ہیگ پہنچیں۔ انہوں نے جنگی جرائم کے ارتکاب کے امکانات کو تسلیم کیا، لیکن ساتھ ہی یہ موقف بھی پیش کیا کہ فوج نے دہشت گردوں کے خلاف ایک قانونی کاروائی کی تھی۔
2020: نومبر میں منعقدہ انتخابات میں ان کی جماعت نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی اتنی سیٹیں جیت لی تھیں کہ وہ تنہا اپنی حکومت قائم کر سکتی ہیں۔ تاہم ان کی جماعت این ایل ڈی کا کہنا تھا کہ وہ ایک قومی اتحاد پر مبنی حکومت قائم کرے گی۔
2021: ہفتوں تک انتخابی نتائج پر تنازعات کے بعد یکم فروری کو فوج کو سامنے آنا پڑا۔ آنگ ساں سوچی, صدر وِن میانٹ، اور حکمران جماعت کی دیگر سینئر شخصیات کو گرفتار کر لیا گیا۔