امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے میانمار میں فوج کی بغاوت اور اقتدار پر قبضے کے بعد خبردار کیا ہے کہ امریکہ میانمار پر پابندیاں عائد کر سکتا ہے۔
پیر کو جاری ایک بیان میں صدر بائیڈن نے کہا کہ برما کے لوگ تقریباً ایک دہائی سے ملک میں انتخابات، سویلین حکومت کے قیام اور پرامن انتقال اقتدار کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ امریکہ نے میانمار پر عائد پابندیاں ہٹا لی تھیں جب ملک جمہوریت کی طرف جا رہا تھا۔ تاہم اقتدار پر فوج کے حالیہ قبضے کے بعد امریکہ پابندی کے قوانین کا جائزہ لے گا اور 'مناسب قدم' اٹھائے گا۔
امریکی صدر کے بقول جمہوریت کی طرف سفر میں پیش رفت کا ختم ہونا پابندی اور اختیارات سے متعلق قوانین کے فوری جائزے کا متقاضی ہے۔ انہوں نے دیگر اقوام پر بھی ایسا ہی کرنے پر زور دیا ہے۔
یاد رہے کہ میانمار کی فوج نے پیر کو ملک کا کنٹرول سنبھالتے ہوئے سیاسی قیادت کو گرفتار کر لیا تھا اور ملک بھر میں کم از کم ایک سال کے لیے ہنگامی حالت نافذ کر دی تھی۔
امریکہ اور اقوامِ متحدہ سمیت دنیا کے مختلف ملکوں نے میانمار میں فوج کے اقتدار پر قبضے اور ملک کی سربراہ آنگ سان سوچی کی گرفتاری کے اقدام پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔
نوبل انعام یافتہ آنگ سان سوچی کی گرفتاری کو 24 گھنٹے سے بھی زائد کا وقت گزر چکا ہے اور اب تک یہ نہیں معلوم کہ اُنہیں کس مقام پر رکھا گیا ہے۔
امریکہ کی سینیٹ نے بھی کہا ہے کہ میانمار کی صورتِ حال کا بغور جائزہ لیا گیا ہے۔
سینیٹ میں اکثریتی جماعت ڈیموکریٹک پارٹی کے رہنما چک شومر نے پیر کو اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ کانگریس صورتِ حال کے حل کے لیے نئی انتظامیہ کے ساتھ مل کر کام کرنے کے لیے تیار ہے۔
اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے ترجمان نے ایک بیان میں کہا ہے کہ انتونیو گوتریس میانمار میں مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ کے اختیارات کی فوج کو منتقلی پر گہری تشویش رکھتے ہیں۔ یہ اقدامات اُن کے بقول میانمار میں جمہوری اصلاحات کے لیے ایک شدید دھچکہ ہیں۔
میانمار میں انسانی حقوق کی صورتِ حال سے متعلق اقوامِ متحدہ کے خصوصی نمائندے اوم اینڈریوز نے بھی دیگر ممالک پر زور دیا ہے کہ وہ میانمار پر پابندیوں کے بارے میں غور کریں۔
انہوں نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ میانمار پر سخت، اہداف والی پابندیاں اور اسلحے پر پابندیوں جیسے اقدامات ناگزیر ہو چکے ہیں تاوقتیکہ ملک میں جمہوریت بحال نہ ہو جائے۔
انسانی فلاح کی تنظیم ریفیوجی انٹرنیشنل نے بھی میانمار میں صورتِ حال کی مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ اسے برمی فوج کے سویلینز کے ساتھ دہائیوں سے جاری سلوک پر تشویش ہے۔
ریفیوجی انٹرنیشنل کے سینئر ایڈووکیٹ ڈینئل پی سلوان نے ایک بیان میں کہا ہے کہ "میانمار کی فوج کی جانب سے اقلیتوں کو نشانہ بنانے کی ایک تاریخ ہے۔ یہ فوج روہنگیا نسل کشی کی بھی ذمہ دار ہے۔ یہ فوجی بغاوت اس جگہ تک رسائی کے بارے میں بھی تشویش کا سبب ہے جہاں انسانی بنیادوں پر امداد کی ضرورت ہے۔
یورپی یونین، برطانیہ، آسٹریلیا، بھارت، جاپان اور سنگاپور نے میانمار میں صورتِ حال پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
جنوبی مشرقی ایشائی ملکوں کی تنظیم آسیان نے بھی میانمار میں حالات کی معمول پر واپسی کا مطالبہ کیا ہے۔
میانمار کی فوج نے اقتدار پر قبضہ کیوں کیا؟
فوج نے سیاسی قیادت کو گرفتار کرتے ہوئے ملک میں ایک برس کے لیے اقتدار سنبھال لیا ہے۔ فوج نے اپنے اس اقدام کو گزشتہ برس نومبر کے انتخابات میں دھاندلی کو قرار دیا ہے۔ تاہم فوج نے اس دعوے کے حق میں ثبوت پیش نہیں کیے۔
فوج نے ملک کی ڈی فیکٹو لیڈر آنگ سان سو چی سمیت حکمران نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی پارٹی کے دیگر عہدیداروں کو بھی حراست میں لیا تھا۔
چین نے، جو میانمار کا سب سے اہم اقتصادی اتحادی ہے، کہا ہے کہ وہ اب بھی حالیہ واقعات کے بارے میں معلومات جمع کر رہا ہے۔