میانمار میں فوجی بغاوت اور ملک کی معزول کردہ سربراہ آنگ سان سوچی کی گرفتاری کے بعد سول نافرمانی کی تحریک شروع ہو گئی ہے۔ تحریک میں نوجوان، طلبہ اور طبی عملہ پیش پیش ہے۔
میانمار کے 70 اسپتالوں کے عملے نے فوج کے اقتدار پر قبضے کے خلاف احتجاجاً کام کاج چھوڑ دیا ہے۔
فوجی بغاوت کے خلاف حال ہی میں قائم ہونے والی سول نافرمانی کی تحریک نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ملک کے 30 ٹاؤنز میں موجود اسپتالوں کے عملے نے فوجی قیادت کے احکامات ماننے سے انکار کر دیا ہے۔ اس تحریک میں چار ڈاکٹرز بھی شامل ہیں۔ تاہم وہ اپنا نام ظاہر کرنا نہیں چاہتے۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ کرونا وائرس کے باعث عوام کو پہلے ہی شدید مشکلات کا سامنا ہے اور ان حالات میں فوج اپنے مفادات کے لیے کام کر رہی ہے۔
بیان کے مطابق "فوج نے تاثر دیا ہے کہ اُن کے نزدیک غریب مریضوں کا کوئی احترام نہیں۔ اس لیے ہم ناجائز فوجی حکومت کے کسی بھی حکم کی تعمیل نہیں کریں گے۔"
خبر رساں ادارے 'رائٹرز' سے بات کرتے ہوئے ینگون سے تعلق رکھنے والے 29 سالہ ڈاکٹر نے کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ فوجی اہلکار واپس اپنی بیرکوں میں چلے جائیں۔ اُن کی وجہ سے ڈاکٹرز اسپتالوں میں نہیں آ رہے۔
یاد رہے کہ میانمار کی فوج نے یکم فروری کو اقتدار پر قبضہ کرتے ہوئے نوبل انعام یافتہ ملک کی سربراہ آنگ سان سوچی سمیت حکمراں جماعت نیشنل لیگ آف ڈیموکریسی کے درجنوں رہنماؤں کو حراست میں لے لیا تھا۔
فوج نے گزشتہ برس نومبر میں ہونے والے انتخابات میں بڑے پیمانے پر دھاندلی کے الزامات عائد کیے ہیں۔ تاہم اس حوالے سے فوج نے کوئی ثبوت پیش نہیں کیے۔ البتہ ملک بھر میں ایک سال کے لیے ایمرجنسی نافذ کرتے ہوئے انتخابات کرانے کا وعدہ کیا گیا ہے۔
امریکہ اور مغربی ملکوں نے میانمار میں فوجی بغاوت کی مذمت کی ہے جب کہ عالمی رہنماؤں کے مطالبات کے باوجود 75 سالہ آنگ سان سوچی بدستور قید ہیں۔
فوجی بغاوت کے خلاف میانمار کے مختلف شہروں میں احتجاج کیا گیا اور ملک کے کاوباری شہر ینگون میں ایک بڑی ریلی کے دوران مظاہرین نے فوج سے واپس جانے کا مطالبہ کیا۔
اقوامِ متحدہ میں میانمار کے لیے عالمی ادارے کے سفیر کرسٹن شرینر نے سلامتی کونسل پر زور دیا ہے کہ وہ میانمار میں جمہوریت کی حمایت میں اجتماعی طور پر واضح پیغام بھیجے۔
دوسری جانب سلامتی کونسل کے بعض ارکان کا کہنا ہے کہ میانمار پر فوجی قبضے کی مذمت، آئین و قانون، انسانی حقوق کے احترام اور فوری طور پر غیر قانونی گرفتاریوں کے خلاف مذمتی بیان جاری کیے جانے پر مشاورتی عمل جاری ہے۔ اس طرح کے کسی بھی اعلان کے لیے کونسل کے 15 ارکان کے درمیان اتفاق ہونا ضروری ہے۔
ادھر اقوامِ متحدہ میں چین کے مشن کا کہنا ہے کہ میانمار کے معاملے پر ارکان کے درمیان کسی تحریری بیان پر اتفاق ہونا مشکل ہے۔ تنازع کو بڑھا دینے یا صورتِ حال کو مزید بگاڑںے کے ایسے کسی اقدام کی نفی کی ضرورت ہے۔
امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے میانمار میں فوجی بغاوت پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اقتدار پر قبضہ کرنے والے جرنیلوں پر پابندی لگانے کی دھمکی دی ہے۔