رسائی کے لنکس

القاعدہ بدستور خطرناک


بن لادن کی پناہ گاہ کا خاکہ
بن لادن کی پناہ گاہ کا خاکہ

امریکہ کی سرزمین پردہشت گردی کے بد ترین حملے کے دس برس بعد، اتوار کے روز القاعدہ کے لیڈر اسامہ بن لادن کو پاکستان کے شہر ایبٹ آباد کے ایک کمپاؤنڈ میں ہلاک کر دیا گیا۔ اس نے گیارہ ستمبر 2001 کے حملوں کے لیے جو تنظیم شروع کی تھی، اس کی مرکزیت تو ختم ہو چکی ہے لیکن وہ آج ایک مختلف شکل میں موجود ہے۔

سی آئی اے کے سابق ڈائریکٹر مائیکل ہیڈن کہتے ہیں کہ اسامہ بن لادن کی ہلاکت سے القاعدہ کی تنظیم کو سخت دھچکہ لگا ہے جس کے نتیجے میں القاعدہ کے تنظیمی ڈھانچے کے اندر شدید کشمکش شروع ہو جائے گی۔ ’’یہ بہت بڑا واقعہ ہے۔ میں اس کی اہمیت مطلق کم کرنا نہیں چاہتا۔ اب القاعدہ کے اندر جانشینی کا بحران پیدا ہو گا جو بالکل نئی چیز ہو گی۔ اس تنظیم کے اندر خلیج کے عربوں اور مصریوں کے درمیان دراڑیں پیدا ہوں گی۔ امکان یہی ہے کہ اس کا کنٹرول ایک مصری، ایمن الزواہری کو منتقل ہو جائے گا۔‘‘

لیکن وہ کہتے ہیں کہ بن لادن کی موت سے اس دہشت گرد تنظیم کا خاتمہ نہیں ہو گا۔ وہ اور دوسرے تجزیہ کار کہتےہیں کہ 2011 کی القاعدہ اب بھی زندہ ہے لیکن اس کی شکل وہ نہیں ہے جو دس برس پہلے نیو یارک اور واشنگٹن پر حملوں کے وقت تھی۔ ہیڈن کہتے ہیں کہ آج القاعدہ زیادہ بڑے جغرافیائی خطے میں بکھری ہوئی ہے اور اس کا تنظیمی ڈھانچہ زیادہ ڈھیلا ڈھالا ہے ۔ اس کی بہت سی شاخیں زیادہ آزادی سے اپنی کارروائیوں کی منصوبہ بندی کرتی ہیں۔

’’یہ بڑی اچھی خبر ہے لیکن القاعدہ ایک نیٹ ورک ہے، یہ کوئی درجہ بدرجہ اختیارات کا نظام نہیں ہے۔ بن لادن بہت اہم تھا لیکن القاعدہ میں اقتدار اور فیصلے کرنے کی اختیارات کسی فرد واحد میں مرکوز نہیں۔ اس کی مختلف شاخوں میں، خاص طور سے یمن میں، بہت زیادہ توانائی اور طاقت موجود ہے۔ اس لیے بن لادن کی ہلاکت سے القاعدہ ختم نہیں ہوئی۔ اس بات کا امکان موجود ہے کہ القاعدہ نیٹ ورک کی طرف سے کوئی پُر تشدد رد عمل دیکھنے میں آئے۔‘‘

2001 میں افغانستان پر امریکہ کے حملے اور طالبان کی حکومت کا تختہ الٹے جانے کے بعد بن لادن لا پتہ ہو گیا تھا۔ امریکہ اور اس کے اتحادی ملکوں نے گذشتہ دس برسوں کے دوران اس کا پتہ چلانے اور القاعدہ اور طالبان کی تحریک پر حملوں میں بہت بڑی مقدار میں پیسہ، سازو سامان اور انٹیلی جنس کے وسائل صرف کیے۔ برطانیہ کی یونیورسٹی آف بریڈ فورڈ میں پاکستان سیکورٹی ریسرچ یونٹ کے ڈائریکٹر شان گریگوری کہتے ہیں کہ بن لادن کی ہلاکت سے پُر تشدد جہاد کے خلاف جنگ میں کوئی بنیادی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ ’’میرے خیال میں وہ بالکل الگ تھلگ ہو کر رہ گیا تھا اور علاقے میں امریکیوں نے اتنی اہم کامیابیاں حاصل کی ہیں، کہ ایک لحاظ سے اسکی اہمیت بہت کم ہو گئی تھی۔ یہ ضرور ہے کہ امریکیوں کے لیے ایک حد تک نائن الیون کے واقعے کا اختتام ہے، لیکن اس سے امریکہ میں یا کہیں اور دہشت گردی کی کارروائیوں پر کوئی اہم اثر نہیں پڑے گا۔‘‘

بن لادن اور ایمن الزواہری (فائل فوٹو)
بن لادن اور ایمن الزواہری (فائل فوٹو)

یو ایس آرمی وار کالج کے لیری گڈسن کا خیال ہے کہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد، انسداد ِ دہشت گردی کی زیادہ کوششیں جنوبی ایشیا کے باہر کے علاقوں میں کی جائیں گی۔’’القاعدہ اور بین الاقوامی اسلامی دہشت گردی کا نیٹ ورک پہلے ہی مختلف طریقوں سے کئی ٹکڑوں میں تقسیم ہو گیا ہے ۔ اب ہمیں یمن اور شمالی افریقہ اور دوسرے علاقوں پر توجہ دینی ہے۔ میرا خیال ہے کہ اب ہماری توجہ کا مرکز تبدیل ہونا شروع ہو جائے گا۔‘‘

سی آئی اے کے سابق ڈائریکٹر مائیکل ہیڈن کہتے ہیں کہ دہشت گردی کے خلاف کام کرنے والے حلقوں میں اس کامیابی کے جشن کی مدت مختصر ہو گی۔’’میں ان لوگوں کو جانتا ہوں جو اس کمرے میں بیٹھ کر گذشتہ چند دنوں میں اس واقعے کے بارے میں باتیں کرتے رہے ہوں گے۔ انہیں بڑا اطمینان محسوس ہوگا اور بڑی خوشی ہوگی، اور پھر وہ اپنے کام پر واپس چلے جائیں گے کیوں کہ یہ لوگ اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ مسئلہ ابھی باقی ہے۔‘‘

عہدے داروں کا خیال ہے کہ بن لادن کے کمپاؤنڈ پر چھاپے میں انہیں جو کاغذات ملے ہیں، ان سے القاعدہ کی دوسری اہم شخصیتوں کے اتے پتے کے بارے میں نئی معلومات حاصل ہوں گی۔

یہ بھی پڑھیے

XS
SM
MD
LG