پاکستان کو دوہری مشکل کا سامنا ہے۔ ایک یہ کہ اس کا ایک اہم اتحادی جو اسے کروڑوں ڈالر کی سالانہ امداد دیتا ہے۔ اسے بغیر اطلاع دیے اپنے ہیلی کاپٹروں پر اس کی سرحد میں داخل ہوا اور تقریباً 40 منٹ تک وہاں ایک کامیاب آپریشن کر کے دنیا کے سب سے زیادہ مطلوب شخص اسامہ بن لادن کو ہلاک کرنے میں کامیاب ہوا۔ دوسری یہ کہ اسامہ بن لادن گزشتہ 5 سال سےایک فوجی چھاونی کے قریب مقیم تھا۔
پاکستانی عوام اورچند سیاسی جماعتیں جہاں ایک طرف امریکہ کی طرف سے اپنے ملک کی سرحدوں کی خلاف ورزی پر برہم ہیں وہیں یہ سوال بھی اٹھ رہا ہے کہ ان کے ملک کے خفیہ ادارے آخر کیوں کر اسامہ کی ایبٹ آباد میں موجودگی سے بے خبر رہے۔
امریکی حکومت کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے کردار اور دیانتداری پر سوالات کا سامنا ہے۔ جن کا جواب اوباما انتظامیہ ملے جلے بیانات سے دے رہی ہے۔
ارنسٹ اسٹاک سابق امریکی رکنِ کانگریس ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ وزیرِ خارجہ نے سفارتی طریقے سے بات کی اور یہی ان کا کام ہے۔ وہ یہ کہنا چاہتی تھیں کہ اسامہ بن لادن کا سراغ لگانے کے لیے کی جانے والی کوششوں میں پاکستان کی مدد شامل تھی۔ مگر لیان پنیٹا فائنل آپریشن کے بارے میں بات کر رہے تھے۔ جس میں انہوں نے پاکستانی تعاون کے بجائے فائنل آپریشن کے بارے میں بتایا کہ یہ امریکیوں نے کیا تھا۔ وہ اپنے لوگوں کی کامیابی کی تشہیر کرنا چاہتے تھے۔ جبکہ وزیرخارجہ ہلری کلنٹن پاکستان کے ساتھ طویل مدتی تعلقات کی بات کرنا چاہتی تھیں۔
مگر سفارتی کوششیں تعلقات میں یک دم بڑھنے والی کی کشیدگی کو کم نہیں کر پا رہیں۔ وزرائے خارجہ کی سطح پر پاک امریکہ سٹرٹیجک ڈائیلاگ کا اگلا دور 21 مئی کو پاکستان میں ہونا تھا جو اب شاید پہلے طے کی گئی تاریخ پر نہ ہو سکے گا۔
ہیرٹیج فاؤنڈیشن کی تجزیہ کار لیسا کرٹس کہتی ہیں کہ دونوں اطراف کو معاملات کو ٹھنڈا ہونے کے لیے وقت دینا چاہیے۔ اور یہ سوچنا چاہیے کہ وہ اس شراکت کو کیسے آگے لے جانا چاہتے ہیں۔ دونوں اطراف کو ایک دوسرے کے لیے تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔
پاکستانی وزیرِ اعظم سید یوسف رضا گیلانی نے حال ہی میں امریکی جریدے ٹائم کو ایک انٹرویو میں کہا کہ امریکہ اور پاکستان کے مفادات مختلف ہیں۔ سابق امریکی سفارت کار ہاورڈ سیفر کہتے ہیں کہ پاکستان اور امریکہ دونوں اپنے سٹریٹیجک مفادات پر گفتگو کرنے کے بارے میں زیادہ سنجیدہ نہیں رہے۔
ان کا کہناتھا کہ ایمبسڈر ہاورڈ شیفر سمجھتے ہیں کہ ایبٹ آباد کا واقعہ ہونے کے بعد جو صورتِ حال پیدا ہوئی ہے اس کی موجودگی میں سٹرٹیجک ڈائیلاگ کرنا بے معنی ہوگا۔وزیرِ اعظم یوسف رضا گیلانی نے یہ بھی کہا تھا کہ وہ عوام کی مرضی کے خلاف امریکہ سے تعاون جاری نہیں رکھ سکتے اس لیے امریکہ کو پاکستانیوں کے دل جیتنے کے لیے کوئی بڑا قدم لینا ہو گا۔ لیسا کرٹس واشنگٹن کے ایک قدامت پسند تھنک ٹینک ہیرٹیج فاونڈیشن سے وابستہ ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ امریکہ اپنی طرف سے تمام تر کوششیں کر چکا ہے۔
انہوں نے کہا کہ امید یہ تھی کہ کیری لوگر برمن بل جو اگلے پانچ سال میں ڈیڑھ ارب ڈالر کی معاشی امداد دے گا ، ایک بڑا قدم ثابت ہو گا لیکن ایسا نہیں ہو سکا۔ امریکی انتظامیہ کا خیال تھا کہ پاکستان کے ساتھ سٹریٹجک مذاکرات جن میں پاکستان کے مفادات کی بات کی جائے ۔ یعنی توانائی، زراعت، صحت اور تعلیم کے شعبے اور ہر وہ چیز جو پاکستان کے لیے اہم ہے۔ امید یہ تھی کہ یہ مذاکرات تعلقات کو بہتر کریں گے۔ میں نہیں سمجھتی کہ امریکہ اس کے علاوہ کچھ اور کر سکتا ہے۔
امریکی مبصرین کا کہنا ہے کہ امریکہ اور پاکستان کے تعلقات انتہائی نازک موڑ پر ہیں مگر پاکستان کو خود بھی ایک نازک صورتِ حال کا سامنا ہے۔ پاک امریکہ تعلقات کے مستقبل پر امریکی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ فیصلہ پاکستان کے ہاتھ میں ہے جبکہ بعض مبصرین یہ بھی کہتے ہیں کہ مذاکرات میں ممکنہ تاخیر کی وجہ یہ ہے کہ پاکستانی حکومت میں وزیرِ خارجہ کا عہدہ تاحال خالی ہے۔