اسامہ بن لادن کی ہلاکت کو دہشت گردی کے خلاف جاری لڑائی میں بہت بڑی کامیابی قرار دیا جا رہا ہے ۔ امریکہ میں آباد وہ افرادجو گیارہ ستمبر دو ہزار ایک کے دہشت گرد حملوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھ چکے ہیں ، اور ان واقعات میں اپنے قریبی رشتوں کو کھو چکے ہیں ، اس کامیابی کودس برسوں کی اذیت کا بدلہ اور ناقابل فراموش اقدام قرار دے رہے ہیں ، لیکن اسامہ بن لادن کی ہلاکت سے اس اتحاد کا کیا ہوگا جو القاعدہ کے خلاف لڑائی کے لئے امریکہ نے پاکستان سے قائم کیا تھا ؟ واشنگٹن کے ماہرین امریکہ اور پاکستان کے تعلقات کے مستقبل کے بارے میں مختلف رائے رکھتے ہیں۔
پاکستان کے دارلحکومت اسلام آباد سے سو میل سے بھی کم فاصلے پر کی گئی اس امریکی کارروائی میں ہلاک ہونےو الے شخص کی شناخت اسامہ بن لادن ہے تو ماہرین اس کی موت کوالقاعدہ کے خلاف دس سال سے جاری لڑائی میں حاصل کردہ سب سے بڑی امریکی کامیابی قرار دے رہے ہیں ۔ صدر اوباما کا کہناتھا کہ گزشتہ برسوں کے دوران میں نے بارہا واضح کیا ہے کہ اگر ہمیں پتہ ہو کہ بن لادن کہاں ہے تو ہم پاکستان کے اندر بھی کارروائی کر سکتے ہیں ۔ لیکن واضح رہے کہ دہشت گردی کے خلاف تعاون میں پاکستان کی مددنے ہی ہماری اس عمارت تک پہنچنے میں راہنمائی کی، جس میں بن لادن روپوش تھا۔ بن لادن نے پاکستان کے خلاف بھی جنگ کا اعلان کر رکھا تھااور لوگوں کے قتل کا حکم دیا تھا ۔
یہ کامیابی ،جو قومی سلامتی کے امریکی اداروں کی زبردست تنظیم نو اور امریکہ میں صدر بش اور صدر اوباما کی تین متواتر حکومتوں کی جانب سے دہشت گردی کے خلاف جاری مسلسل کارروائیوں کے بعد عمل میں آئی ہے ،پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کے لئے بہت اہم قرار دی جا رہی ہے امریکی وزیر خارجہ ہلری کلنٹن کا کہناتھا کہ حالیہ برسوں میں دونوں ملکوں کی حکومتوں ، فوج اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے درمیان تعاون سے القاعدہ اور طالبان پر دباؤ بڑھانے میں مدد ملی اور یہ پیش رفت جاری رہنی چاہئے ، ہم اپنی پارٹنر شپ جاری رکھنے پر قائم ہیں ۔
پاکستان اور امریکہ کے درمیان گزشتہ چھ دہائیوں سے جاری تعاون نے گیارہ ستمبر 2001ء کے بعد سٹرٹیجک پارٹنر شپ کا درجہ حاصل کیا تھا ،مگر اس کی مضبوطی پر دونوں ملکوں میں سوال اٹھائے جاتے رہے ہیں ۔ اس سال فروری میں پاکستان کے شہر لاہور میں دو پاکستانی شہریوں کی ہلاکت پر امریکی اہلکار ریمنڈ ڈیوس کی گرفتاری کے بعد دونوں ملکوں کے تعلقات مشکلات کا شکار ہو گئے تھے ۔ گزشتہ چند ہفتوں کے دوران امریکہ اور پاکستان کے سیکیورٹی اداروں کے سربراہوں کے واشنگٹن اور اسلام آباد کے دورے بھی اسی سلسلے کی کڑی سمجھے جاتے ہیں ۔۔لیکن واشنگٹن میں اب بحث اس بات پر ہو رہی ہے کہ آیا ابیٹ آباد میں پاکستان کی ایک ملٹری اکیڈمی کے قریب کیا گیا کامیاب امریکی آپریشن دہشت گردی کے خلاف لڑائی میں پاکستان کو امریکہ کا اتحادی ثابت کرتا ہے ؟ یا پاکستان پر امریکہ کے دشمن نمبر ایک کو پناہ دینے کا الزام مضبوط کرتا ہے ؟
امریکی تجزیہ کار مارون وائن بام کہتے ہیں کہ کسی حد تک پاکستان کا تعاون اس کام میں شامل تھا ۔ اگرچہ یہ کارروائی بہت حد تک یک طرفہ ہو سکتی ہے لیکن جیسے کہ صدر اوباما نے کہا کہ عالمی دہشت گردی کے خلاف پاکستان کے تعاون نے ہی یہ آپریشن ممکن بنایا ۔ جس میں خفیہ معلومات اور اس پیغام رساں کے بارے میں معلومات کی فراہمی شامل ہوگی ، ہو سکتا ہے اس کارروائی کے آخر میں پاکستان کا تعاون حاصل کیا گیا ہو، کیونکہ اس میں ڈونز نہیں بلکہ ہیلی کاپٹر استعمال کئے گئے تھے ، اور زمینی کارروائی کی جانی تھی ۔ میرے خیال میں اگر پاکستانی حکومت کو لگتا کہ یہ ان کی حدود کی خلاف ورزی ہے تو وہ اس پر کوئی اعتراض ضرور اٹھاتے ۔
واشنگٹن کے مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ سے وابستہ مارون وائن بام کہتے ہیں کہ امریکہ نے پاکستان پر پہلے ہی واضح کر دیا تھا کہ اگر کسی انتہائی مطلوب دہشت گرد کی پاکستان میں موجودگی کی اطلاع ملی تو پاکستان کو سمجھ لینا چاہئے کہ ایسی کوئی کارروائی ہو سکتی ہے جیسی ایبٹ آباد میں دیکھنے کو ملی۔ مارون وائن بام کہتے ہیں کہ اسامہ بن لادن کی ہلاکت پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں تبدیلی کا ایسا موڑ ثابت ہو سکتی ہے ، جس کے مثبت اور منفی دونوں رخ اختیار کرنے کے امکانات ہیں ۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمیں ابھی دیکھنا اور انتظار کرنا ہوگا ۔ اس کا نتیجہ دونوں ملکوں کے درمیان مستقبل میں مزید تعاون کی صورت بھی نکل سکتا ہے ، ہو سکتا ہے کہ پاکستان میں اب اس احساس میں اضافہ ہو کہ دونوں ملکوں کے درمیان خفیہ معلومات کے تبادلے میں دونوں ملکوں کا مفاد ہے ۔ لیکن دوسری طرف اس کا انحصار اس پر بھی ہوگا کہ پاکستان میں اسامہ بن لادن کی موت کا کیا رد عمل ہوتا ہے اگر یہ معاملہ ایک سیاسی فٹ بال بن جاتا ہے ، اور ایک اور بہانہ بنتا ہے یہ کہنے کا کہ امریکہ پاکستان کی خودمختاری کی خلاف ورزی کر رہا ہے ، اور اس معاملے کو پاکستان کے ایٹمی پروگرام سے جوڑنے کی کوشش کی جاتی ہے تو یہ بڑی مایوس کن بات ہوگی ۔
لیکن پاکستانی دارلحکومت کے اتنے قریب ایک آباد شہر میں اسامہ بن لادن کی موجودگی پر واشنگٹن میں کئی سوالات بھی اٹھائے جا رہے ہیں ۔ رابرٹ گٹ مین جانزہاپکنز یونیورسٹی کے سینٹر آن پالیٹکس اینڈ فارن ریلیشنز کے سربراہ ہیں ۔
وہ کہتے ہیں کہ کوئی تو جانتا تھا کہ وہ اس محل میں رہ رہا ہے ۔ ایک ایسا کمپاونڈ جس کی حفاظت پر اتنے گارڈز تعینات تھے، اس کے بارے میں کسی کو تو علم ہوگا ۔اس سے یہ بھی پتہ ہوتا ہے کہ اس علاقے میں اسامہ سے ہمدردی رکھنے والے موجود تھے ۔ یہ ناقابل یقین ہے کہ اس کی تلاش پر اتنی رقم خرچ کی گئی ، اور دنیا کی سب سے طاقتور فوج کو اسے ہلاک کرنے میں دس سال لگ گئے ۔یہ بالکل ناقابل یقین لگتا ہے کہ وہ شخص سب کی نظروں کے سامنے پاکستانی دارلحکومت کے قریب ایک آرام دہ جگہ پر چھپا ہوا تھا ۔ظاہر ہے اس سے پاکستان اور امریکہ کے تعلقات پر ، جو پہلے ہی زیادہ اچھے نہیں تھے ،کوئی اچھا اثر نہیں پڑے گا ۔
بعض تجزیہ کاروں کے مطابق پاکستان اور امریکہ کے درمیان تعلقات کے مستقبل کا انحصار اس بات پربھی ہے کہ دونوں ملکوں کا میڈیا اس صورتحال پرکتنی ذمہ داری کا مظاہرہ کرتا ہے اور پاکستان اور امریکہ کی سیاست میں اس معاملے کو کس رنگ میں عوام کے سامنے پیش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ مارون وائن بام کہتے ہیں کہ دونوں ملکوں کے تمام حلقوں کی جانب سے ذمہ داری کا مظاہرہ پاک امریکہ بہتر تعاون کی بنیاد بن سکتا ہے۔