علی عمران وائس آف امریکہ اردو سے منسلک ہیں اور واشنگٹن ڈی سی سے رپورٹ کرتے ہیں۔
'بلیک لائیوز میٹر' تحریک کے ذمہ داران کے مطابق یہ تحریک مقامی سطح پر لوگوں کی مدد کرتی ہے تاکہ سیاہ فام برادری کے ساتھ ریاست یا اس کے اداروں کی طرف سے نسلی امتیاز کو روکا جا سکے۔
اقتصادی اور صنعتی کارروائیوں میں کمی کی وجہ سے ماحولیاتی تبدیلی کتنی عارضی ہے اس بات کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جا سکتا ہے کہ چین میں کرونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کی پابندیاں ختم ہونے اور کاروباری زندگی کے واپس لوٹنے پر ملک میں ماحولیاتی آلودگی اسی سطح پر واپس آگئی ہے
جارج فلائیڈ کی ہلاکت کے بعد احتجاجی مظاہروں کے آغاز میں اس ویڈیو کا بہت عمل دخل ہے جس میں انہیں ایک پولیس افسر کے گھٹنے تلے دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ ویڈیو بڑے پیمانے پر انٹرنیٹ پر دیکھی گئی۔
اپریل میں دو کروڑ سے زائد ملازمتیں ختم ہوئی تھیں اور بے روزگاری کی شرح 14.7 فی صد تک جا پہنچی تھی۔ اور خیال کیا جا رہا تھا کہ مئی میں بھی یہ منفی رجحان جاری رہے گا۔
چین، بھارت اور بنگلہ دیش کے علاوہ انسانی حقوق کے کمیشن نے جن ممالک میں کووڈ نائینٹین کے دوران آزادی رائے پر پابندیوں کے حوالے سے تشویش کا اظہار کیا ہے، ان میں کمبوڈیا، انڈونیشیا، ملیشیا، میانمار، نیپال، فلپائن، سری لنکا، تھائی لینڈ اور ویتنام شامل ہیں۔
عالمی ادارہ صحت کے اہلکار کار مائیکل راین نے کہا ہے کہ ''ہمیں اس مسئلے پر غیرمعمولی حد تک محتاط رویہ اپنانا چاہیے، تاکہ ہم ایسا تاثر نہ دیں کہ کرونا وائرس نے یکایک از خود یہ فیصلہ کیا ہے کہ وہ اب کم مہلک شکل اختیار کر لے گا۔ ایسا ہرگز نہیں ہے''
امریکی ٹرانسپورٹیشن حکام کے مطابق، گزشتہ ہفتوں میں ہوائی سفر میں مسلسل اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ اکتیس مئی کو تقریباً تین لاکھ 53 ہزار لوگوں نے کمرشل جہازوں پر سفر کیا اس سال 14 اپریل کے مقابلے میں ہوائی سفر میں یہ 303 فیصد اضافہ ہے۔
صحت عامہ کے بحران اور اقتصادی ترقی کی شرح میں کمی کی وجہ سے تین دہائیوں میں پہلی بار ایسا ہو گا کہ ترقی پذیر ممالک میں انسانی ترقی کے اہداف حاصل نہیں کیے جا سکیں گے۔
ڈاکٹر آمنہ جو برطانیہ کی ناٹنگھم یونیورسٹی میں اعزازی پروفیسر ہیں پاکستان اور برطانیہ میں بین المذاہب ہم آہنگی اور امن کے موضوعات پر کام کرچکی ہیں۔ یہ کتاب ان کے ذاتی تجربات پر مبنی ہے، جس میں ان کے پاکستان کی عیسائی، ہندو، پارسی، سکھ، کلاش، بدھ مت اور دیگر برادریوں سے ملاقاتیں اور گفتگو شامل ہیں۔
شہر کی میئر مریل باوزر کے مطابق دارالحکومت کو جزوی طور پر کھولنے کا فیصلہ کوویڈ 19 کے کیسز میں دو ہفتوں کی مسلسل کمی کے رجحان کے بعد کیا گیا ہے۔
خطے میں موجود افغان امور کے ماہر اور تبصرہ نگار، طاہر خان نے کہا ہے کہ ماضی کے مقابلے میں اب حالات مختلف ہیں اور خطے کے ممالک یہ نہیں چاہیں گے کہ افغانستان پھر سے عدم استحکام اور جنگوں میں گھرا رہے۔
یہ پودا نما جانور ساحلوں کو سمندری طوفانوں سے بچاتے ہیں اور انسانوں کے لیے خوراک اور روزگار کا ذریعہ بھی ہیں۔ اوشن سوسائٹی تنظیم کے مطابق، کورل ریف کی اقتصادی قدر تیس ارب ڈالر سے زیادہ ہے، جبکہ دنیا کے نصف ارب لوگ خوراک اور روزگار کے لیے مرجان پر انحصار کرتے ہیں۔
ڈاکٹر سحر خامس جو میری لینڈ یونیورسٹی میں مواصلات کے شعبے میں ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں کہتی ہیں کہ غلط اطلاعات اور افواہوں کو اس وقت پھلنے پھولنے کا موقع ملتا ہے جب عوام اور قابل یقین اطلاعات کہ درمیان خلیج موجود ہو۔
کینٹکی یونیورسٹی کے کیمیائی انجینئرنگ کے پروفیسر، دیباکر بھٹاچاریا کہتے ہیں کہ چہرے کے ماسک کے ساتھ ایک ایسی انزائم لگائی جائے گی جو کرونا وائرس کے ان ابھرے ہوئے نکیلے حصوں کو ختم کر دے گی جس سے وہ انسانی جسم میں داخل ہوکر وائرس کو پھیلاتا ہے
مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ میں جنوبی ایشیا کے سربراہ، ڈاکٹر مارون وائن بام نے کہا ہےکہ رپورٹ میں حقائق کو بیان کیا گیا ہے اور اس میں کوئی خاص نئی بات نہیں ہے۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان نے افغانستان میں امن مذاکرات کی حمایت کی اور وہ طالبان پر ایک حد تک دباؤ ڈال سکتا ہے
مختلف کمپنیوں نے ان ملازمین کے پرخطر حالات میں کام کو سراہتے ہوئے مختلف مالی ترغیبات دیں۔ ان میں فی گھنٹہ کام کی اجرت میں اضافہ بھی شامل ہے۔ اس اضافے کو مشکل حالات کا الاؤنس یا ہیرو پے کہا جاتا ہے۔ چند کمپنیوں نے ہر ہفتے اپنے ملازمین کو بونس دینے کا اعلان کیا ہے۔
نامور شاعرہ فریدہ حق نے بتایا کہ بہت سے لوگ اس وقت ذہنی کوفت، اضطراب اور برہمی کی سی کیفیت میں ہیں، کیونکہ حالات ان کے بنائے ہوئے منصوبوں کے برعکس ہیں۔ ایسے میں وہ اپنے خیالات و احساسات کا اظہار سوشل میڈیا پر کرتے ہیں۔
ایک حالیہ سائنسی تحقیق کے مطابق کووڈ 19 کی دوا کی عدم موجودگی میں اگر زیادہ تر لوگ چہرے کا ماسک پہنیں تو کرونا وائرس کے کیسز میں 80 فیصد کمی واقع ہوتی ہیں۔
سفیر پاکستان نے کہا کہ امریکہ اور طالبان کے مابین طے پانے والا معاہدہ ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے، اور یہ ظاہر کرتا ہے کہ افغان فریقین بھی آپس میں امن کی خاطر مل کر کام کر سکتے ہیں۔
صحت عامہ اور لوگوں کے روزگار کی حفاظت کے ساتھ ساتھ یہ سنگین بحران ایک موقع بھی پیدا کر رہا ہے کہ خطے کے ممالک باہمی اقتصادی تعاون کے متعلق سوچ بچار کریں۔
مزید لوڈ کریں