امریکی ریاست کینٹکی میں سائنسدان چہرے کا ایسا ماسک بنا رہے ہیں جو کرونا وائرس کو نہ صرف روکے بلکہ اس کے رابطے میں آتے ہی اسے ختم بھی کر دے۔ یہ پیش رفت اس وقت سامنے آئی جب امریکی معیشت کے مختلف پہلوؤں کو اقتصادی کارروائیوں کے لیے کھولا جا رہا ہے؟
ماہرین کے مطابق، جب تک کووڈ نائنٹین کے مقابلے کے لیے کوئی موثر دوا یا ویکسین دریافت نہیں ہو جاتی، لوگوں کو وبا سے بچنے کے لئے چہرے پر ماسک پہننا انتہائی ضروری حفاظتی تدبیر رہے گی۔
حال ہی میں ہارورڈ یونیورسٹی اور میساچیوسٹس انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے محققین نے بتایا کہ وہ چہرے پہ لگانے والا ایسا ماسک بنا رہے ہیں جو کرونا وائرس کی موجودگی میں روشن ہو کر استعمال کرنے والوں کو خبردار کرے گا۔ کینٹکی یونیورسٹی میں کرونا وائرس کو سرے سے مار دینے والے چہرے کے ماسک کی تیاری ایک حوصلہ افزا خبر کے طور پر سامنے آئی ہے۔
کینٹکی یونیورسٹی کے کیمیائی انجینئرنگ کے پروفیسر، دیباکر بھٹاچاریا کہتے ہیں کہ چہرے کے ماسک کے ساتھ ایک ایسی انزائم لگائی جائے گی جو کرونا وائرس کے ان ابھرے ہوئے نکیلے حصوں کو ختم کر دے گی جس سے وہ انسانی جسم میں داخل ہوکر وائرس کو پھیلاتا ہے۔
امریکی قومی سائنس فاؤنڈیشن نے کینٹکی یونیورسٹی کو اس تحقیق کے لیے ایک لاکھ 50 ہزار ڈالرز کی گرانٹ دی ہے۔ محققین کے مطابق، ایسے ماسک کی تیاری 6ماہ میں مکمل ہوگی۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے، وبائی امراض کے ماہر ڈاکٹر راشد چھٹانی نے اس پیشرفت کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ کرونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے اور اس سے بچاؤ کے لیے احتیاطی تدابیر بہت اہم ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ''میں سمجھتا ہوں کہ ہاتھوں کو صاف رکھنے جیسی کامن سینس تدابیر کے علاوہ سوشل ڈسٹنسنگ کا خیال رکھنا اور چہرے پہ ماسک پہننا معمول کے حالات کی طرف لوٹنے کے لئے بہت ضروری ہے، کیونکہ اس وقت اس موذی مرض کے علاج کے لیے کوئی مؤثر دوا نہیں بنائی گئی۔ اس کے باعث، ایسے احتیاطی اقدامات پر انحصار زیادہ رہے گا''۔
ڈاکٹر چھٹانی، جو ایک نامور محقق بھی ہیں، نے کہا ہے کہ کرونا وائرس کو ختم کرنے والا چہرے کا ماسک کووڈ نائنٹین کا مقابلہ کرنے میں یقیناً بہت مددگار ثابت ہوگا۔ لیکن، یہ واحد ایجاد تمام مسائل کا حل نہیں ہے، کیوں کہ کرونا وائرس نہ صرف ہوا بلکہ مختلف سطحوں سے پھیل سکتا ہے۔
ورجینیا میں قائم گروو ڈینٹل کلینک کے بانی، ڈاکٹر مقصود چودھری نے انزائم ممبرین کے ایسے چہرے کے ماسک کے بنانے کو ''ایک خوش آئند پیش رفت'' قرار دیا۔
انہوں نے کہا، ''میں سمجھتا ہوں کہ ٹیکنالوجی کے استعمال سے ہم اس وبا کا بہت حد تک ایک موثر انداز میں مقابلہ کر سکتے ہیں''۔
ڈاکٹر مقصود چودھری جن کا شمار پاکستان کے نامور دندان سازوں میں ہوتا ہے کہتے ہیں کہ وہ اپنے تمام کلینکس پر ایسی ٹیکنالوجی پہلے ہی سے استعمال کر رہے ہیں جو شعاعوں کے ذریعے بیکٹیریا اور وائرس کو مختصر وقت میں ختم کر کے صحت عامہ کو یقینی بنانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔
انھوں نے کہا کہ کینٹکی میں بنایا جانے والا انزائم کی تہہ سے لیس چہرے کا یہ ماسک خاص طور پر عوامی جگہوں پر بہت کارآمد ثابت ہو سکتا ہے، کیونکہ ان جگہوں پر لوگ ایک دوسرے کے قریب ہوتے ہیں یا انہیں ایک دوسرے سے روبرو بات کرنا پڑتی ہے۔
ماہرین کے مطابق، کیونکہ ویکسین کی تیاری میں ابھی مختلف مراحل باقی ہیں ٹیکنالوجی کے استعمال سے احتیاطی تدابیر کو مستحکم کرنا ضروری ہے، تاکہ اس وبا کا مقابلہ کیا جا سکے۔