واشنگٹن میں اس ہفتے شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق جنوبی ایشیائی ملکوں میں باہمی تجارت کے بہت سے مواقع موجود ہونے کے باوجود بڑھ نہیں پا رہی۔ لیکن، گزشتہ دہائی میں چین نے خطے کے ساتھ تجارتی حجم کو کئی گنا بڑھا دیا ہے۔
بروکنگ انسٹیٹیوشن کے پالیسی بریف کے مطابق، خطے کے ملکوں کے درمیان تجارت ان ملکوں کی مجموعی عالمی تجارت کے مقابلے میں محض 5.6 فیصد ہے۔
جنوبی ایشیا کے سب سے بڑے ملک بھارت کا خطے میں تجارتی حجم اس کی عالمی تجارت کے مقابلے میں 1.7 فیصد اور 3.8 فیصد کے درمیان رہا ہے۔ چین جو جغرافیائی طور پر خطے کی دو بڑی معیشتوں یعنی بھارت اور پاکستان سے جڑا ہوا ہے، اس نے اپنی برآمدات کو مسلسل بڑھایا ہے اور 2018 تک یہ برآمدات بڑھ کر 52 ارب ڈالر ہوگئیں۔
رپورٹ کو مرتب کرنے والے ماہرین کے مطابق، خطے میں تجارتی حجم میں کمی کی کئی وجوہات ہیں جن میں تجارت کی راہ میں رکاوٹیں، سیاسی اختلافات اور تنازعات شامل ہیں۔
اب جبکہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس بات کا عندیہ دیا ہے کہ وہ افغانستان سے امریکی فوجوں کا انخلا اس سال مکمل کرنا چاہتے ہیں، ماہرین کے مطابق، کابل حکومت اور طالبان میں مذاکرات کے بعد افغانستان میں دیرپا امن کے حصول کے سلسلے میں خطے کے اقتصادی روابط اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔
لیکن، خطے میں اقتصادی تعاون کا خواب کیسے حقیقت بنے گا جبکہ بھارت اور چین اور بھارت اور پاکستان میں کشیدگی مسلسل برقرار ہے۔ اور ابھی افغان جنگ کے اختتامی باب کے متعلق بھی کوئی واضح تصویر سامنے نہیں کہ بین الاقوامی برادری افغانستان کے بہتر مستقبل کے لیے اقتصادی تعاون کے کسی معاہدے پر راضی اور عمل پیرا ہوجائے، کیونکہ بہت سے ممالک اس وقت کرونا وائرس کے چیلنجوں سے نبرد آزما ہیں۔
ان حالات کے پس منظر میں یہ بات بھی اہم ہے کہ امریکہ نے نائن الیون کے دہشت گرد حملوں کے بعد شروع ہونے والی اس جنگ کے دوران افغانستان میں کئی ترقیاتی منصوبے مکمل کیے اور تعلیم اور صحت کی سہولیات کو بھی ممکن بنایا۔
ان مسائل اور ان کے ممکنہ حل پر روشنی ڈالنے کے لیے وائس آف امریکہ نے بین الاقوامی امور کے ماہرین سے بات کی تو معروضی حقائق اور امیدوں پر مبنی دو طرح کے خیالات سامنے آئے۔
واشنگٹن میں موجود سیاسی شخصیت ساجد تارڑ نے کہا کہ افغانستان سے امریکی افواج کا انخلا صدر ٹرمپ کے سیاسی منشور کا حصہ ہے اور طالبان سے کئے گئے معاہدے اور فوجو کی واپسی کے ذریعے وہ اپنا وعدہ پورا کر رہے ہیں۔ ان کے مطابق، کووڈ نائنٹین کا چیلنج بھی امریکی افواج کے انخلا کے محرکات میں شامل ہے۔
ساجد تارڑ، جو مسلم برائے امریکہ تنظیم کے بانی ہیں اور رپبلکن پارٹی سے وابستہ ہیں، کہتے ہیں کہ صدر ٹرمپ جنگوں کے خلاف ہیں، کیونکہ وہ زیادہ تر وسائل امریکی عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ کرنا چاہتے ہیں۔
افغانستان کو معاشی طور پر چلانے کے لئے ساجد تارڑ کہتے ہیں کہ بین الاقوامی برادری بالخصوص خطے کے ممالک کو چاہیے کہ وہ اقتصادی اور تجارتی تعاون کے ذریعے افغانستان کو اقتصادی لحاظ سے اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے کی کوششوں میں حصہ لیں۔ انہوں نے خاص طور پر پاکستان اور چین کا ذکر کیا۔ انہوں نے کہا کہ چین کی پاکستان میں سرمایہ کاری سے مکمل ہونے والے منصوبوں سے افغانستان کو فائدہ پہنچ سکتا ہے۔
خطے میں موجود افغان امور کے ماہر اور تبصرہ نگار، طاہر خان نے کہا ہے کہ ماضی کے مقابلے میں اب حالات مختلف ہیں اور خطے کے ممالک یہ نہیں چاہیں گے کہ افغانستان پھر سے عدم استحکام اور جنگوں میں گھرا رہے۔
انہوں نے کہا کہ چالیس سال کی جنگوں اور تنازعات کے بعد افغانستان کے بہتر مستقبل کا موقع موجود ہے، کیونکہ وہاں اب پارلیمنٹ بھی ہےاور آئین بھی۔ ایسے میں جنگ بندی اور امن قائم ہونے کے بعد پاکستان تجارتی اور اقتصادی حوالے سے افغانستان کی بھرپور مدد کر سکتا ہے۔
طاہر خان نے خاص طور پر بلوچستان میں قائم ہونے والی گوادر کی بندرگاہ کا ذکر کیا اور کہا کہ افغانستان کو چمن کے راستے سے اس بندرگاہ کے ذریعے تجارت کرنے کا آسان اور قریبی راستہ میسر ہوگا۔
دوسری جانب، انھوں نے کہا کہ پاکستان بھی افغانستان کے ساتھ روابط سے فائدہ اٹھا سکتا ہے، کیونکہ افغانستان کے ذریعے وسطی ایشیائی ممالک سے آنے والی بجلی اور گیس پاکستان کی توانائی کی ضروریات کو بہت حد تک پورا کیا جا سکتا ہے۔ گزشتہ کئی سالوں سے ترقیاتی منصوبے جاری ہونے کی وجہ سے پاکستان افغانستان بارڈر کی دونوں جانب ترسیل کے راستے بھی تجارت کو بڑھانے میں مددگار ثابت ہوں گے۔
اسی طرح طاہر خان نے کہا کہ چین بھی افغانستان میں سرمایہ کاری اور ترقیاتی منصوبوں میں مدد کرکے خطے میں اقتصادی ترقی اور دیرپا امن کے حصول کے لیے کردار ادا کر سکتا ہے۔
لیکن، واشنگٹن میں ووڈرو ولسن تھنک ٹینک کے ایشیا سینٹر سے منسلک ساؤتھ ایشیا کے ایسوسییٹ، مائیکل کوگلمن سمجھتے ہیں کہ خطے میں جاری تناؤ اور کئی دہائیوں سے جاری تنازعات کے باعث اجتماعی تعاون کی بات افسانوی سی لگتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ افغانستان اور پاکستان کے تعلقات میں اعتماد کی کمی، پاکستان بھارت تنازعات اور بھارت اور چین میں جاری تناؤ اور بھارت کے اپنے دوسرے ہمسایہ ممالک سے اختلافات کی وجہ سے ایسا دکھائی نہیں دیتا کہ خطے کے ممالک کسی جادو کے زیر اثر یکدم تعاون کرنے پر آمادہ ہوجائیں۔ انہوں نے کہا کہ ایسا دکھائی دیتا ہے کہ افغانستان میں عدم استحکام جاری رہے گا۔
انھوں نے کہا کہ حالانکہ یہ بات بھی درست ہے کہ تمام ممالک کے تعاون سے اقتصادی ترقی کی شرح بڑھے گی، اس خطے میں دوطرفہ تعلقات میں بہتری آ سکتی ہے۔
کوگلمن نے کہا کہ اگر ہم کھلے انداز سے حالات کا جائزہ لیں تو پھر بھی جنوبی ایشیا کے ممالک کو آپس میں اقتصادی طور پر یکجا کرنے کے لیے بہت بڑے پیمانے پر رہداریوں اور توانائی کے منصوبوں کی ضرورت ہوگی۔