رسائی کے لنکس

کیا امریکی چہرے کے ماسک کو اپنا معمول بنائیں گے؟


فائل فوٹو
فائل فوٹو

اگر کرونا وائرس کی موجودہ صورت حال میں آپ کو محفوظ انداز میں معمول کی زندگی کی طرف واپس لوٹنا ہے تو عوامی مقامات پر چہرے پر ماسک پہننے کو ایک معمول بنانا ہو گا۔

ایک حالیہ سائنسی تحقیق کے مطابق کووڈ 19 کی دوا کی عدم موجودگی میں اگر زیادہ تر لوگ چہرے کا ماسک پہنیں تو کرونا وائرس کے کیسز میں 80 فیصد کمی واقع ہوتی ہیں۔

یوسی برکلے کے بین الاقوامی کمپیوٹر سائنس انسٹی ٹیوٹ اور ہانگ کانگ کی سائنس اور ٹیکنالوجی کی یونیورسٹی کی شراکت سے کی جانے والی تحقیق سے ظاہر ہوا ہے کہ سماجی فاصلوں کی پابندی کے ساتھ ساتھ لوگوں کا چہرے پر ماسک پہننا کرونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کا مؤثر ترین طریقہ ہے۔

تحقیقی ٹیم کے رہنما ڈاکٹر ڈی کائی کہتے ہیں کہ اگر 80 فیصد عوام ماسک پہن لیں تو کووڈ 19 کے کیسز میں بارہ گنا کمی ہوتی ہے۔

ماہرین اس حوالے سے جاپان اور امریکہ میں متضاد صورت حال کا موازنہ کرتے ہیں۔ جاپان میں لاک ڈاؤن کی کوئی پابندی نہیں ہے، لیکن وہاں تقریباً تمام لوگ عوامی جگہوں پر چہرے پر ماسک پہنتے ہیں۔

اس مہینے کے ایک دن کے اعداد و شمار پر نظر ڈالی جائے تو پتا چلتا ہے کہ جس روز جاپان میں 21 افراد کرونا وائرس کا شکار ہوئے، اسی دن امریکہ میں دو ہزار سے زاہد اموات ہوئیں۔

اگر جاپان اور امریکہ کی آبادی کے تناسب کو سامنے رکھا جائے تو پھر بھی جاپان میں امریکہ کے مقابلے میں دو فیصد اموات ہوئیں۔

ماہرین کے مطابق ان دو مختلف رجحانات کا تعلق معاشرتی عوامل سے بھی ہے۔ مثال کے طور پر امریکہ میں چہرے پر ماسک پہننا شخصی آزادی اور آزادی رائے کی نفی سمجھا جاتا ہے۔

اس مسئلے سے جڑے ہوئے مختلف پہلووں کو سمجھنے کے لیے وائس آف امریکہ نے واشنگٹن میں مقیم ڈاکٹر طارق شہاب سے گفتگو کی۔

ڈاکٹر شہاب، جو امراض قلب اور صحت عامہ کے ماہر ہیں، کہتے ہیں کہ معمول کی زندگی کو بحال کرنا ایک بتدریج اور انتہائی محتاط عمل ہو گا۔

ڈاکٹر طارق شہاب، ماہر امراض قلب اور صحت عامہ
ڈاکٹر طارق شہاب، ماہر امراض قلب اور صحت عامہ

ماسک کی افادیت کے بارے میں وہ کہتے ہیں کہ سماجی فاصلوں کی پابندی کے ساتھ ساتھ ناک اور منہ کا ڈھانپنا بہت ضروری ہے۔ کیونکہ عام طور پر دستیاب سرجیکل ماسک 60 فی صد جراثیم اور وائرس کو روکتے ہیں جب کہ این 95 تقریبا 90 فیصد تک جراثیموں کو روکتا ہے۔

وبائی مرض کا یہ بحران کسی ایک فرد یا گروہ کا مسئلہ نہیں، بلکہ یہ تمام معاشرے کا مسئلہ ہے۔ اس لیے سب لوگوں کو احتیاطی تدابیر اختیار کرنا ہوں گی۔ اور ایسا کرنے سے ہی معمول کی زندگی کی طرف لوٹا جا سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگرچہ اب کرونا وائرس کی وسیع پیمانے پر ٹیسٹنگ کے وسائل دستیاب ہے لیکن یہ عام طور پر ان افراد کے لیے لازمی سمجھا جاتا ہے جو اس بیماری سے متعلقہ علامات ظاہر کریں۔

ایک اور بات جس کا امریکی معاشرے کو خیال رکھنا ہو گا، وہ یہ ہے کہ بڑی عمر کے شہری اور ایسے لوگ جو پہلے ہی سے ذیابیطس یا سرطان جیسے امراض میں مبتلا ہیں، انہیں وائرس سے بچایا جائے۔

جہاں تک دل کے امراض میں مبتلا لوگوں کا تعلق ہے تو ڈاکٹر طارق شہاب کہتے ہیں کہ انھیں اس بحران میں بہت احتیاط کی ضرورت ہے کیونکہ جن لوگوں کی قوت مدافعت کمزور ہو، وہ اس وائرس کا آسانی سے شکار ہو سکتے ہیں۔

ایک اور اہم پہلو یہ بھی ہے کہ لوگوں کو افواہوں سے بچنا چاہیے اور انہیں اپنے معالج سے مشورے کے بغیر کوئی بھی دوا استعمال نہیں کرنی چاہیے۔

ڈاکٹر شہاب، جو دی ہارٹ انسٹی ٹیوٹ کے بانی ہیں، کہتے ہیں کہ صحت عامہ کے ماہرین اور میڈیا کا عوام تک درست اور صحیح معلومات کو پہنچانا بھی بہت لازمی ہے۔ ڈاکٹر شہاب کہتے ہیں کہ اسی لیے انہوں نے اپنی شریک حیات ریما کے ساتھ مل کر پاکستان میں ویڈیو پروگرام کے ذریعے عوام کو حقائق سے آگاہ کرنے کا سلسلہ شروع کیا۔

ڈاکٹر شہاب حال ہی میں پاکستان سے واپس آئے ہیں۔ وہ کہتے ہیں اس حوالے سے امریکہ میں حالات مختلف ہیں کیونکہ یہاں لوگوں کو صحت عامہ اور کرونا وائرس کے بحران کے متعلق زیادہ آگاہی ہے۔ لیکن یہاں معاشرتی رجحانات کو سامنے رکھتے ہوئے امریکی عوام کو کاروبار حیات کی بحالی کے لیے بہت سوچ سمجھ کر معمول کی کاروائیوں میں حصہ لینا ہو گا۔بلکہ میں کہوں گا کہ چہرے پر ماسک پہننا اور سماجی فاصلے رکھنا ہی آئندہ آنے والے کئی مہینوں کا معمول ہونا چاہیے۔

XS
SM
MD
LG