|
ایک ایسے وقت میں جبکہ اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی کو ایک نازک موڑ کا سامنا ہے وائٹ ہاوس نے کہا ہے کہ امریکی حکام فلسطینی تنظیم سے براہ راست بات چیت کر رہے ہیں۔
قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ہونے والی اس گفت و شنید کی تصدیق وائٹ ہاوس کی پریس سیکرٹری کیرولائن لیوٹ نے بدھ کو کی۔
تاہم، انہوں نے بات چیت کی تفصیلات بتانے سے انکار کر دیا۔
لیوٹ نے کہا، " صدر ( ٹرمپ) نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ امریکی عوام کے مفاد میں دنیا بھر میں لوگوں سے ڈائیلاگ کرنا اور ان سے بات چیت کرنا نیک نیتی پر مبنی کوشش ہے تاکہ وہ کام کیا جائے جو امریکی عوام کے لیے درست ہو۔"
پریس سیکرٹری نے کہا کہ حماس کے حکام سے براہ راست روابط پر اسرائیل سے مشورہ کیا گیا تھا۔
لیکن ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ اس بات کا تعلق امریکی جانوں سے بھی ہے۔
وائٹ ہاؤس کی پریس سیکرٹری کیرولائن لیوٹ وائٹ ہاؤس میں ایک پریس بریفنگ کےدوران، فوٹو اے پی 5 مارچ 2025
امریکہ کی طرف سے حماس کے ساتھ بات چیت کی قیادت یرغمالوں سے متعلق صدر ٹرمپ کے نامزد ایلچی ایڈم بوہلر نے کی۔
یہ براہ راست گفت وشنید ایسے وقت ہوئی ہے جب اسرائیل اور حماس کےدرمیان جنگ بندی بے یقینی صورتحال کا شکار ہے۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اشارہ دیا ہے کہ اگر حماس جنگ بندی کی نئی تجویز کی شرائط سے متفق نہیں ہوتا تو اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کو لڑائی کی طرف لوٹنے کے صورت میں ان پر دباو ڈالنے کا ارادہ نہیں رکھتے۔
خبر رساں ادارے ایسو سی ایٹڈ پریس کے مطابق اسرائیلی حکام نے کہا ہے کہ جنگ بندی کی نئی تجویز امریکہ کے مشرق وسطی کے ایلچی اسٹیو وٹکاف کی تیارہ کردہ ہیں۔
مجوزہ معاہدے کے تحت عسکریت پسند تنظیم حماس کو جنگ بندی میں توسیع اور مستقل امن پر مذاکرات کے بدلے میں نصف یرغمالوں کو رہا کرنا ہوگا۔
SEE ALSO: غزہ میں کتنے یرغمال باقی رہ گئے؟یہ امریکی محکمہ خارجہ کی جانب سے 1997 میں حماس کو ایک غیر ملکی دہشت گرد گروپ نامزد کیے جانےکے بعد سے امریکہ اور حماس کے درمیان پہلی براہ راست بات چیت ہے ۔
حماس کے ایک عہدےدار نے جسے عوامی طور پر تبصرے کا اختیار نہیں تھا، اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ یہ گفت وشنید جو گزشتہ ماہ ہوئی خصوصی طور پر امریکی یرغمالوں کی رہائی اور غزہ میں حماس کےاقتدار کےبغیر جنگ کے ممکنہ خاتمےپر مرکوز تھی۔
خیال رہے کہ اسرائیلی حکام نے کہا ہے کہ حماس، جس نے 7 اکتوبر 2023 کو اسرائیل پر حملے کے دوران کئی افراد کو یرغمال بنا لیا تھا، اب بھی 24 مغویوں کو اسیر رکھے ہوئے ہے جن کے بارے میں خیال ہے کہ وہ زندہ ہیں۔
ان زندہ یرغمالوں میں امریکی شہری ایڈن الیگزینڈر بھی شامل ہیں۔
اس کے علاوہ خیال کیا جاتا ہے کہ حماس کے قبضے میں 35 یرغمالوں کی لاشیں بھی ہیں۔
SEE ALSO: مزید چار یرغمالوں کی لاشیں اسرائیل کے سپرد، اسرائیلی جیلوں سے سینکڑوں فلسطینی رہااسرائیل کا کہنا ہے کہ حماس کے دہشت گرد حملے میں تقریباً 1200 لوگ ہلاک ہوئے تھے جب کہ جنگجو 250 کے قریب افراد کو یرغمال بنا کر اپنے ساتھ غزہ لے گئے۔
امریکہ اور بعض مغربی ملکوں نے حماس کو ایک دہشت گرد تنظیم قرار دیا ہوا ہے۔
ادھر حماس کے زیر اہتمام غزہ کے صحت کے حکام کےمطابق اسرائیلی حملوں میں 48 ہزار فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں جن میں بڑی تعداد میں خواتین اور بچے شامل ہیں۔
اسرائیل کا دعویٗ ہے کہ اس نے جنگ کے دوران حماس کے کئی ہزار جنگجو ہلاک کیے تھے۔ تاہم، حکام نے اس بارے میں کوئی ثبوت پیش نہیں کیا ہے۔
(اس خبر میں شامل زیادہ تر معلومات اے پی سے لی گئی ہیں)