رسائی کے لنکس

ٹرمپ کا غزہ منصوبہ؛ اردن اور مصر کے لیے فلسطینی پناہ گزین قابلِ قبول کیوں نہیں؟


  • صدر ٹرمپ نے اردن کے بادشاہ عبداللہ سے ملاقات میں غزہ سے فلسطینیوں کی منتقلی اور تعمیر نو کے بارے میں اپنےمؤقف کا اعادہ کیا۔
  • اردن کے بادشاہ نے ٹرمپ سے ملاقات میں ان کے غزہ منصوبے کی براہ راست مخالفت سے گریز کیا۔
  • ملاقات کے بعد بادشاہ عبداللہ نے کہا کہ وہ فلسطینیوں کی نقل مکانی کی مخالفت پر قائم ہیں۔
  • اسرائیل کے ہمسایہ عرب ممالک مصر اور اردن کے علاوہ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور قطر نے بھی صدر ٹرمپ کے منصوبے کی مخالفت کی ہے۔
  • مصر اور اردن بڑے پیمانے پر فلسطینی پناہ گزینوں کی منتقلی کو اپنے لیے سیکیورٹی چیلنج سمجھتے ہیں۔
  • امریکہ اردن اور مصر کو سالانہ بھاری امداد دیتا ہے۔
  • اگر ٹرمپ دونوں ممالک پر ٹیرف عائد کرتے ہیں تو ان کے لیے یہ ایک تباہ کُن فیصلہ ثابت ہوگا۔

اردن کے فرماں روا شاہ عبداللہ دوم نے امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کے بعد غزہ سے فلسطینیوں کی بڑے پیمانے پر نقل مکانی کو مسترد کرنے کا مؤقف دہرایا ہے۔

صدر ٹرمپ نے اس ملاقات میں ایک بار پھر غزہ کو امریکہ کے کنٹرول میں لینے اور فلسطینیوں کو وہاں سے منتقل کرنے کا عزم دہرایا تھا۔ اردن کے بادشاہ نے اس ملاقات میں ٹرمپ کے اس منصوبے کی براہ راست مخالفت سے گریز کیا تھا۔

اس موقعے پر میڈیا کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے شاہ عبداللہ کا کہنا تھا وہ سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک کے ساتھ اس پر تبادلۂ خیال کر رہے ہیں کہ کس طرح صدر ٹرمپ کے ساتھ مل کر کام کرسکتے ہیں۔

صدر ٹرمپ غزہ کے بارے میں مسلسل اس منصوبے پر زور دے رہے ہیں کہ فلسطینیوں کی 20 لاکھ سے زائد آبادی کو جنگ سے تباہ حال اس علاقےسے اردن اور مصر منتقل کر کے غزہ کی تعمیر نو کی جائے۔

وہ ایک انٹرویو میں یہ عندیہ بھی دے چکے ہیں کہ ہمسایہ ممالک میں منتقل کیے گئے فلسطینیوں کو واپس غزہ آنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ تاہم صدر ٹرمپ کے اس منصوبے کی تفصیلات تاحال سامنے نہیں آئی ہیں۔

ایسی کسی تجویز پر عمل کے لیے مصر اور اردن کا فلسطینیوں کو قبول کرنا ناگزیر ہوگا تاہم یہ دونوں ہی ایسے کسی بھی منظر نامے کو مسترد کرتے ہیں۔ فلسطینیوں نے بھی صدر ٹرمپ کی مخالفت کی ہے جب کہ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور قطر بھی اسے مسترد کرچکے ہیں۔

صدر ٹرمپ سے ملاقات کے دوران شاہ عبداللہ نے براہ راست ان کے غزہ منصوبے کو مسترد نہیں کیا بلکہ غزہ کے کینسر سے متاثرہ دو ہزار بچوں کو علاج کے لیے اردن لانے کا اعلان بھی کیا۔

لیکن صدر سے ملاقات کے بعد منگل ہی کو سوشل میڈیا پلیٹ فورم 'ایکس' پر شاہِ اردن نے ایک پوسٹ میں کہا کہ انہوں نے فلسطینیوں کی منتقلی کے خلاف اپنے مؤقف کا اعادہ کیا ہے اور انہوں نے اسے "عربوں کا متفقہ مؤقف" قرار دیا۔

یہاں اس بات کا جائزہ لیا جارہا ہے کہ اردن اور مصر بڑے پیمانے پر فلسطینی پناہ گزینوں کو اپنے ممالک میں قبول کرنے سے مسلسل انکاری کیوں ہیں؟

نقل مکانی کی تاریخ

اسرائیل کے قیام کے وقت 1948 میں ہونے والی جنگ سے پہلے اور بعد میں لگ بھگ سات لاکھ فلسطینیوں نے ان علاقوں سے نقل مکانی کی یا انہیں بے دخل کیا گیا جہاں اب اسرائیل قائم ہے۔ فسلطینی ان واقعات کو ’نکبہ‘ کے نام سے یاد کرتے ہیں جس کا مطلب تباہی و بربادی ہے۔

اسرائیل نے یہ علاقہ چھوڑنے والے فلسطینیوں کو واپس آنے کی اجازت نہیں دی تھی۔ ان نقل مکانی کرنے والے فلسطینیوں اور ان کی اولاد کی تعداد ساٹھ لاکھ تک پہنچ چکی ہے۔ ان فلسطینی پناہ گزینوں کی اکثریت غزہ میں ہے۔ اس کے علاوہ یہ بڑی تعداد میں مقبوضہ مغربی کنارے، اردن، لبنان اور شام میں پھیلے ہوئے ہیں۔

اسرائیل نے 1967 میں ہونے والی جنگ کے بعد جب مغربی کنارے اور غزہ پر قبضہ کرلیا تھا تو مزید تین لاکھ فلسیطنیوں نے نقل مکانی کی تھی جن میں سے زیادہ تر نے اردن کا رُخ کیا تھا۔

سلطنتِ اردن میں سب سے زیادہ فلسطینی پناہ گزین قیام پذیر ہیں جہاں ان کی تعداد 20 لاکھ سے تجاوز کرچکی ہے اور ان میں سے زیادہ تر کو اردن کی شہریت بھی مل چکی ہے۔

دہائیوں سے جاری اسرائیل فلسطینی تنازع کے حل کے لیے جاری مذاکرات میں پناہ گزینوں کے معاملے کو مرکزی حیثیت حاصل رہی ہے۔ یہ امن عمل 2009 کے بعد معطل ہوچکا ہے اور پناہ گزینوں سے متعلق فریقین کا مؤقف جوں کا توں ہے۔

فلسطینیوں کے نزدیک تمام پناہ گزین اپنے علاقوں میں واپس آنے کا حق رکھتے ہیں جب کہ اسرائیل کا اصرار رہا ہے کہ ہمسایہ عرب ریاستیں ان پناہ گزینوں کو مستقل طور پر اپنی آبادیوں میں شامل کرلیں۔

کئی فلسطینیوں کو خدشہ ہے کہ حالیہ غزہ جنگ کے بعد اگر وہ اس تباہ شدہ علاقے کو چھوڑ کر کسی اور ملک نقل مکانی کرتے ہیں تو وہ کبھی واپس نہیں آسکیں گے۔

اردن اور مصر کے چیلنجز

غزہ جنگ کے آغاز میں بعض اسرائیلی حکام نے جب غزہ سے پناہ گزینوں کو اردن اور مصر بھیجنے کی بات کی تھی تو دونوں ہی ممالک نے اسے سختی سے مسترد کردیا تھا۔

دونوں ہی ممالک نے اسرائیل سے امن معاہدہ کر رکھا ہے لیکن ساتھ ہی یہ غزہ، مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم پر مشتمل فلسطینی ریاست کے قیام کی بھی حمایت کرتے ہیں۔ انہیں خطرہ ہے کہ غزہ سے آبادی کی مستقل نقل مکانی سے علیحدہ فلسطینی ریاست کا قیام ممکن نہیں رہے گا۔

مصر کے صدر عبد الفتاح السیسی بھی بڑی تعداد میں فلسطینیوں کی مصر منتقلی سے پیدا ہونے والے سیکیورٹی خطرات سے خبر دار کر چکے ہیں۔

'ایسوسی ایٹڈ پریس' کے مطابق حماس اور دیگر عسکری گروپس فلسطینی سوسائٹی میں گہری جڑیں رکھتے ہیں۔ اس لیے بڑے پیمانے پر پناہ گزین فلسطینیوں کی منتقلی سے آئندہ مصر میں حالات کشیدہ ہونے اور اسرائیل سے تعلقات خراب ہونے کا بھی خدشہ ہے۔

دونوں ملکوں کےد رمیان کیمپ ڈیوڈ معاہدے کے بعدامن قائم ہوگیا تھا۔ مصر اور اسرائیل کے درمیان 1979 میں یہ معاہدہ امریکہ کی ثالثی سےہوا تھا۔ اس کے بعد اسرائیل نے 1967 کی جنگ میں قبضہ کیے گئے صحرائے سینا میں مصر کے علاقے واپس کردیے تھے اور وہاں سے فوج نکال لی تھی۔

اس معاہدے کے بعد دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات قائم ہوئے تھے اور مصر اسرائیل کو تسلیم کرنے والا پہلا عرب ملک بن گیا تھا۔

مصر کی جانب سے جن خدشات کا اظہار کیا جارہا ہے یہ صورتِ حال 1970 کی دہائی میں لبنان میں بھی پیش آچکی ہے۔ اُس وقت فلسطینیوں کی صفِ اول کی مسلح تنظیم 'فلسطین لبریشن آرگنائزیشن' (پی ایل او) تھی جس کے سربراہ یاسر عرفات تھے۔ پی ایل او نے جنوبی لبنان کو اسرائیل کے خلاف حملوں کا مورچہ بنا لیا تھا۔

پی ایل او کی کارروائیوں کی وجہ سے لبنان میں پناہ گزینوں کے بحران نے جنم لیا جس کی وجہ سے لبنان 1975 کےبعد 15 سال تک خانہ جنگی کا شکار رہا۔ اسرائیل نے 1982 اور 2000 میں دو بار لبنان پر حملے کیے۔

اس سے ملتے جلتے حالات میں پی ایل اواور اردن کی حکومت کے درمیان بھی 1970 میں تصادم ہوا۔

اسرائیل کے انتہائی قوم پرست حلقے مغربی کنارہ اپنے پاس رکھنے کے لیے یہ تجویز دیتے رہے ہیں کہ فلسطینی ریاست اردن میں بننی چاہیے۔ اردن کا شاہی خاندان ایسی کسی صورتِ حال کو پوری طرح مسترد کرتا ہے۔

ٹرمپ کیا کرسکتے ہیں؟

اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ صدر ٹرمپ اس معاملے میں کہاں تک جانے کے لیے تیار ہیں۔

صدر ٹرمپ اگر مصر اور اردن پر تجارتی ٹیرفس نافذ کرتے ہیں تو یہ دونوں کے لیے تباہ کُن فیصلہ ہوگا۔ دونوں ممالک ہر سال امریکہ سے اربوں ڈالر امداد لیتے ہیں اور مصر پہلے ہی معاشی بحران کا شکار ہے۔

ٹرمپ یہ امداد روکنے کا عندیہ دے چکے ہیں۔ لیکن منگل کو شاہ عبداللہ سے ملاقات میں انہوں نے یہ دھمکی دہرانے سے گریزکیا اور کہا کہ "مجھے دھمکی دینے کی ضرورت نہیں۔ ہم اس سے بالا تر ہیں۔"

اے پی کے مطابق بڑی تعداد میں پناہ گزینوں کی آمد دونوں ممالک کے لیے عدم استحکام کا باعث بن سکتی ہے۔ مصر کا کہنا ہے کہ وہ اس وقت 90 لاکھ سے زائد پناہ گزینوں کی میزبانی کر رہا ہے جن میں سوڈان کی خانہ جنگی کے باعث نقل مکانی کرنے والے پناہ گزین بھی شامل ہیں۔

اردن کی آبادی ایک کروڑ 20 لاکھ سے زائد ہے اور سات لاکھ پناہ گزین بھی ہیں جن میں زیادہ تر شام سے آئے ہوئے ہیں۔

سعودی عرب واضح کرچکا ہےکہ فلسطینی ریاست کے قیام کے بغیر وہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات بحال نہیں کرے گا۔ اس لیے سعودی قیادت نے بھی صدر ٹرمپ کے منصوبے کی مخالفت کی ہے۔

اس رپورٹ میں شامل معلومات ایسوسی ایٹڈ پریس سے لی گئی ہیں۔

فورم

XS
SM
MD
LG