کسی بھی فوجی کارروائی کا مطلب کھلی جنگ ہے: ایران

(فائل فوٹو)

ایران کے وزیر خارجہ نے امریکہ یا سعودی عرب کے کسی بھی فوجی اقدام کو 'کھلی جنگ' کے آغاز کے مترادف قرار دیا ہے۔

گزشتہ ہفتے سعودی عرب کی تیل کی تنصیبات پر ہونے والے ڈرون حملوں کے بعد سے تہران کی جانب سے مسلسل خدشات کا اظہار کیا جارہا ہے، جب کہ ریاض اور واشنگٹن، تہران کو اس حملے کا ذمہ دار قرار دے رہے ہیں۔

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا سالانہ اجلاس آئندہ ہفتے شروع ہونے والا ہے جس میں شرکت کے لیے ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف امریکہ پہنچ چکے ہیں۔

امریکی نشریاتی ادارے 'سی این این' کو دیے گئے انٹرویو میں جواد ظریف نے کہا ہے کہ "میں ایک سنجیدہ بیان دے رہا ہوں کہ ہم جنگ نہیں چاہتے اور ایران کسی بھی فوجی محاذ آرائی میں الجھنا نہیں چاہتا‘‘۔

انہوں نے متنبہ کیا کہ اگر ان کے ملک پر جنگ مسلط کی گئی تو وہ اپنی سر زمین کے دفاع سے نہ تو غافل ہیں اور نہ ملک کے دفاع میں ہچکچاہٹ محسوس کریں گے۔

جب اُن سے امریکہ یا سعودی عرب کی جانب سے کسی بھی قسم کی فوجی کارروائی سے متعلق سوال کیا گیا تو اُن کا کہنا تھا کہ ’’اس کا مطلب تو کھلی جنگ ہے‘‘۔

جواد ظریف نے مشرق وسطیٰ میں قیام امن کے لیے امریکی اتحاد پر بھی سوال اٹھایا اور تہران کی کوششوں کا بھی ذکر کیا ہے۔

ایرانی وزیر خارجہ نے اپنے ایک ٹوئٹ میں مشرق وسطیٰ میں 1985 میں امن کے لیے تہران کی کوشش سے لے کے 2019 تک مختلف وقتوں میں آٹھ معاہدوں کا ذکر کیا ہے۔ اس میں 2015 میں یمن میں قیام امن کے منصوبے کا بھی ذکر ہے۔

خیال رہے کہ جمعرات کو امریکہ نے کہا تھا کہ وہ مشرق وسطیٰ میں ایران کے خطرات کو کم کرنے کے لیے ایک اتحاد بنا رہا ہے۔

واشنگٹن کا یہ اقدام سعودی عرب میں دنیا کی سب سے بڑی تیل کی تنصیبات پر ڈرون حملوں کے بعد سامنے آیا ہے۔

سعودی عرب اور امریکہ ان حملوں کا ذمہ دار ایران کو قرار دے رہا ہے، جبکہ حملوں کی ذمہ داری یمن میں ایران کے حمایت یافتہ حوثی باغیوں نے قبول کی تھی۔

خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق، امریکہ کے وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے ایک حالیہ بیان میں کہا ہے کہ امریکہ ایک ایسا اتحاد بنانے کا خواہش مند رہا ہے جو قیام امن کا ضامن ہو۔

ایران کے وزیر خارجہ جواد ظریف نے ایک اور ٹوئٹ میں الزام عائد کیا کہ امریکہ کے لیے مشرق وسطیٰ میں لوگوں سے زیادہ تیل کی اہمیت ہے۔

امریکہ، سعودی عرب اور مشرق وسطیٰ کے اپنے اتحادیوں کے ساتھ ایران کو ممکنہ جواب دینے پر تبادلہ خیال میں مصروف ہے۔ اس مقصد کے لیے امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے سعودی عرب کا دورہ بھی کیا تھا۔