امریکہ کے نمائندۂ خصوصی برائے افغان مفاہمت زلمے خلیل زاد نے قطر کے دارالحکومت دوحہ میں طالبان کے اعلیٰ نمائندے ملا عبدالغنی بردار سے ملاقات کی ہے۔
طالبان کے قطر آفس کے ترجمان سہیل شاہین کے مطابق ملاقات میں قیدیوں کی جلد رہائی، بین الافغان مذاکرات اور امریکہ طالبان معاہدے پر عمل درآمد کے طریقوں پر تبادلۂ خیال ہوا ہے۔
سہیل شاہین نے اپنے ایک ٹوئٹ میں کہا ہے کہ قطر میں طالبان وفد اور خلیل زاد کی قیادت میں امریکی ٹیم سے ہونے والی ملاقات کے دوران قطری وزیرِ خارجہ کے خصوصی نمائندے ڈاکٹر مطلق القحتانی بھی موجود تھے۔
تاہم ملاقات سے متعلق ابھی تک امریکہ کے حکام کی جانب سے کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے۔
قبلِ ازیں بدھ کو امریکہ کے محکمۂ خارجہ نے ایک بیان میں کہا تھا کہ زلمے خلیل زاد ایک بار پھر افغان امن کوششوں کے لیے دوحہ، اسلام آباد اور نئی دہلی کا دورہ کریں گے۔
محکمۂ خارجہ کے مطابق زلمے خلیل زاد اپنے دورے کے دوران افغانستان میں تشدد میں فوری کمی، بین الافغان مذاکرات کے آغاز کے لیے تیز اوقات کار کے تعین اور افغان فریقین کے درمیان کرونا وائرس کی وبا سے نمٹنے کے لیے تعاون پر زور دیں گے۔
یاد رہے کہ افغانستان میں طویل جنگ کے خاتمے کے لیے امریکہ اور طالبان کے درمیان رواں برس 29 فروری کو طے پانے والے معاہدے پر واشنگٹن کی جانب سے زلمے خلیل زاد نے دستخط کیے تھے۔
افغان امن عمل کے سلسلے میں زلمے خلیل گزشتہ ماہ دوحہ اور اسلام آباد کا دورہ کر چکے ہیں۔ انہوں نے قطر میں طالبان کے نائب سربراہ ملا عبدالغنی بردار سے بھی ملاقات کی تھی۔
خلیل زاد کا تازہ ترین دورہ دوحہ بھی افغانستان میں قیام امن کی کوششوں کی کڑی ہے۔ امریکی محکمۂ خارجہ کے مطابق اس دورے میں خلیل زاد طالبان رہنماؤں سے ملاقات کے دوران معاہدے پر عمل درآمد پر زور دیں گے۔
امریکی نمائندہ خصوصی برائے افغان مفاہمت نئی دہلی میں بھارتی عہدیداروں سے بھی ملاقات میں افغانستان اور خطے میں پائیدار امن میں بھارتی کردار پر تبادلۂ خیال کریں گے۔
بھارت کے بعد زلمے خلیل زاد اسلام آباد جائیں گے جہاں وہ پاکستانی عہدیداروں سے ملاقات میں افغان امن عمل سے متعلق بات چیت کریں گے۔
خلیل زاد کا تازہ ترین دورہ ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب امریکہ کی جانب سے طالبان اور افغان حکومت پر مسلسل امن معاہدے پر عمل درآمد کرنے پر زور دیا جا رہا ہے۔
بھارت افغان حکومت کا اہم حمایتی ہے جب کہ پاکستان نے افغان امن عمل میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
تجزیہ کاروں کے خیال میں خلیل زاد کی طرف سے ایک ساتھ دونوں ملکوں کے دورے کا مقصد افغان عمل کے لیے حمایت حاصل کرنا ہے جو بظاہر تعطل کا شکار ہے۔
حال ہی میں امریکہ کے وزیرِ دفاع مارک ایسپر نے کہا تھا کہ امن عمل اپنے شیڈول سے پیچھے ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ افغان حکومت اور طالبان اپنے وعدوں کی پاسداری میں ناکام رہے ہیں۔
یاد رہے کہ امن معاہدے کے تحت افغان حکومت کو طالبان کے پانچ ہزار قیدی رہا کرنا ہیں جس کے بدلے طالبان ایک ہزار افغان قیدیوں کو رہا کریں گے۔ اس سلسلے میں دونوں جانب سے قیدیوں کا تبادلہ بھی ہوا ہے۔ البتہ تمام قیدیوں کی رہائی تاخیر کا شکار ہے۔
طالبان کہہ چکے ہیں کہ وہ اپنے تمام قیدیوں کی رہائی سے پہلے بین الافغان مذاکرات میں شرکت نہیں کریں گے اور افغان سیکیورٹی فورسز کے خلاف عسکری کارروائیاں جاری رکھیں گے۔
دوسری طرف افغان صدر اشرف غنی اور ان کے سیاسی حریف عبداللہ عبداللہ کے درمیان حکومتی شراکت اقتدار کا معاہدہ طے ہونا ابھی باقی ہے۔ افغان حکومت کی اندرونی سیاست کی وجہ سے امریکہ، طالبان معاہدے پر مکمل درآمد تاخیر کا شکار ہے۔