نیپال نے بھارت کی شمال مشرقی ریاست تری پورہ کے وزیر اعلیٰ بِپلب دیب کے اس بیان پر سخت اعتراض کیا ہے کہ بھارت کے وزیرِ داخلہ امیت شاہ نہ صرف بھارت کی تمام ریاستوں میں، بلکہ نیپال میں بھی بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت تشکیل دینا چاہتے ہیں۔
نیپال کے وزیرِ خارجہ پردیپ کمار گیاولی نے کہا ہے کہ حکومت نے میڈیا رپورٹس دیکھی ہیں اور بھارت کی حکومت کے سامنے اس پر باضابطہ طور پر اعتراض کیا گیا ہے۔
نیپال کی حکمران اور حزبِ اختلاف کی جماعتوں نے امیت شاہ کے مبینہ بیان پر تنقید کرتے ہوئے اسے ملک کی خود مختاری کے لئے نقصان دہ قرار دیا ہے۔
تری پورہ کے وزیرِ اعلیٰ بپلب کمار دیب نے اتوار کو اگرتلہ میں اپنی جماعت کے اجتماع میں از راہِ مذاق کہا تھا کہ امیت شاہ جب بی جے پی کے صدر تھے تو انہوں نے ایک بار پارٹی کے اجلاس میں کہا تھا کہ نیپال اور سری لنکا میں بی جے پی کی حکومت بنانا ابھی باقی ہے۔
وزیرِ اعلیٰ نے امیت شاہ کے نظریات کو "بصیرت افروز" قرار دیا اور کہا کہ ان نظریات نے بقول ان کے، بی جے پی کو دنیا کی سب سے بڑی سیاسی پارٹی بنا دیا ہے۔
'بھارت کی ثقافت کو سب سے بہتر سمجھتے ہیں'
ریاستی بی جے پی نے ان کے بیان کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے بی جے پی کے طویل مدتی سیاسی عزائم کے بارے میں درست کہا ہے۔ ہم بھارت کی ثقافت اور فلسفے کو سب سے بہتر سمجھتے ہیں اور ہم اسے دوسرے ممالک میں بھی پھیلانا چاہتے ہیں۔
تریپورہ بی جے پی کے ترجمان نبیندو بھٹا چاریہ نے ایک بیان میں کہا کہ ہمارا بنیادی ہدف صرف انتخابات میں کامیابی حاصل کرنا نہیں ہے۔ ہم پوری دنیا کے عوام کو جیتنا چاہتے ہیں۔
نیپال کے ایک اخبار 'کھٹمنڈو پوسٹ' کے مطابق بھارت میں نیپال کے سفیر نیلمبر آچاریہ نے بھارت کی وزارتِ خارجہ میں نیپال اور بھوٹان کے انچارج جوائنٹ سیکریٹری ارندم باگچی کو فون کرکے اس بیان پر احتجاج کیا ہے۔
اخبار کے مطابق باگچی نے ان سے کہا کہ یہ بیان بے بنیاد ہے اور وزارتِ خارجہ کی ہفتہ وارپریس بریفنگ میں اس پر وضاحت پیش کی جائے گی۔
'بھارت کی خارجہ پالیسی بہت مبہم ہے'
بھارت نیپال رشتوں پر گہری نظر رکھنے والے سینئر تجزیہ کار اور صحافی انیل چمڑیا نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ ایک بار بی جے پی کے متنازع رہنما سبرامنین سوامی نے ایک انٹرویو کے دوران ان سے کہا تھا کہ سری لنکا کو بھارت میں ضم کر لینا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت بھارت میں ہمسایہ ممالک کے ساتھ دوستانہ رشتوں کے قیام کی پالیسی کا فقدان ہے۔
ان کے مطابق بھارت کو اپنے ہمسایہ ممالک کو چھوٹا سمجھنا اور ان کے ساتھ دوستانہ رشتوں کے قیام کے سلسلے میں سنجیدہ نہ ہونا بی جے پی حکومت کا نظریاتی مسئلہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت بھارت کی خارجہ پالیسی بہت مبہم ہے اور ہمسایہ ممالک کے ساتھ کیسے تعلقات ہونے چاہئیں۔ اس پر کوئی واضح نظریہ نہیں ہے جس کی وجہ سے اس قسم کی باتیں سامنے آرہی ہیں۔
'وزیرِ اعلیٰ کا بیان بی جے پی حکومت کے نظریات کا عکس ہے'
انیل چمڑیا نے نیپال میں آئین سازی کے وقت کے اپنے ایک دورے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ آئین ساز کمیٹی کے سربراہ نے ان کو بتایا تھا کہ نیپال میں جو بھارتی باشندے ہیں انہوں نے اس بات پر اعتراض کیا تھا کہ نیپال کو ایک ہندو ملک بنانے کے بجائے ایک سیکولر ملک کیوں بنایا جا رہا ہے۔
ان کے بقول وزیرِ اعلیٰ کا بیان بی جے پی حکومت کے نظریات کا ایک عکس ہے۔ اس قسم کی سوچ پڑوسی ملکوں کی تشویش اور ان کی جانب سے رد عمل کا سبب بنتی ہے۔ اس کے علاوہ ایسے بیانات ان ممالک کے ساتھ بھائی چارے، دوستی اور مساوات کی بنیاد پر تعلقات کے قیام کے سلسلے میں ایک خوف پیدا کرتے ہیں۔
انیل چمڑیا نے مزید کہا کہ بی جے پی کے نئے رہنما پڑوسی ممالک کو برابری کا درجہ دینے کے لیے تیار نہیں ہے۔ اس کے علاوہ اس قسم کے بیانات داخلی سیاست کی وجہ سے بھی دیے جاتے ہیں۔
یاد رہے کہ گزشتہ سال مئی میں بھارت کے وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ کی جانب سے لیپو لیکھ سے ہوتے ہوئے کیلاش مان سروور تک جانے والی سڑک کے افتتاح پر نیپال نے اعتراض کیا تھا اور لیپو لیکھ کو اپنا علاقہ قرار دیا تھا جس کو بھارت نے مسترد کر دیا تھا۔
اس کے بعد نیپال نے اپنے قومی نقشے میں ترمیم کی اور اس میں تین علاقوں لیپو لیکھ، کالا پانی او رلمپیا دھرا کو بھی شامل کیا۔ اس پر بھارت نے اعتراض کیا تھا۔ ان علاقوں پر دونوں ملکوں کا دعویٰ ہے۔
کافی دنوں تک دونوں کے تعلقات کشیدہ رہے۔ پھر رفتہ رفتہ کشیدگی میں کمی آئی۔ لیکن بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بپلب دیب جیسے بیانات تعلقات کو مزید کشیدہ بنانے کا سبب بن سکتے ہیں۔
'سری لنکا میں غیر ملکی سیاسی جماعت کو کام کی اجازت نہیں'
ادھر سری لنکا کے الیکشن کمیشن کے چیئرمین نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ہمارے انتخابی قوانین کسی غیر ملکی سیاسی جماعت کو یہاں کام کرنے کی اجازت نہیں دیتے۔
تاہم سری لنکا حکومت کی جانب سے اس سلسلے میں باضابطہ طور پر کوئی بیان تاحال سامنے نہیں آیا ہے۔
نئی دہلی میں بی جے پی رہنماؤں نے بھی اس پر کوئی بیان دینے سے انکار کر دیا ہے۔